افغانستان میں خواتین پر عائد پابندیاں انتہائی مایوس کن ہیں، بلاول بھٹو
وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہےکہ افغان طالبان نے خواتین کے تعلیم اور روزگار کے حق پر پابندیاں لگا کر دنیا بھر کے مسلمانوں کو شدید مایوس کیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے زیرانتظام منعقدہ پہلی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے کہا کہ انتہا پسندوں نے ایک ایسے مذہب کے تاثر کو مسخ کردیا ہے جو خواتین کو زندگی کے تمام شعبوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی ترغیب دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے انسانی حقوق، خاص طور پر ان کے تعلیم اور روزگار کے حق پر عائد پابندیوں پر پاکستان اور دیگر او آئی سی ممالک کی جانب سے شدید مایوسی کا اظہار ایک فطری ردعمل ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ پابندیاں اسلام کے احکام کے خلاف ہیں، میں افغان حکومت سے مخلصانہ درخواست کرتا ہوں کہ وہ ان پابندیوں کو واپس لے اور افغانستان کی خواتین کو اس قابل بنائے کہ وہ اپنے ملک کی ترقی اور پیشرفت میں بھرپورحصہ ڈال سکیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے اقوام متحدہ کے کمیشن برائے حیثیتِ خواتین کے 67ویں اجلاس کے موقع پر نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں منعقدہ ایک روزہ کانفرنس کے ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس کی صدارت کی۔
کانفرنس کے شرکا نے اعتراف کیا کہ مسلم خواتین کو اب بھی متعدد چیلنجز کا سامنا ہے، اسلامی اتحاد تنظیم (او آئی سی) ممالک کا صنفی ترقی کا انڈیکس 0.87 پر ہے جوکہ عالمی اوسط 0.94 سے کم ہے۔
وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بطور سربراہ او آئی سی کونسل خطاب کرتے ہوئے کہا کہ او آئی سی نے اس کانفرنس کا اہتمام اسلام میں خواتین کے حقوق، کردار اور شناخت کے حوالے سے موجود غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مغرب میں مسلم خواتین سے متعلق تاثر مسلم معاشروں کی تاریخ اور ہمارے ثقافتی، تاریخی اصولوں اور کرداروں سے لاعلمی پر مبنی ہے۔
انہوں نے کہا کہ نائن الیون کے بعد ہمارے مذہبی تصور کو انتہا پسندوں نے ہائی جیک کر لیا جو ہمارے عقیدے کی نمائندگی نہیں کرتے، میں اس پروپیگنڈے اور تاثر کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک خاص ذمہ داری محسوس کرتا ہوں۔
ایک مسلمان اور پاکستانی ہونے کے ناطے یہ بات مجھے شدید ناگوار گزرتی ہے کہ مغربی عوام کے تاثرات میں اسلام کا چہرہ شہید بینظیر بھٹو جیسا نہیں بلکہ اسامہ بن لادن جیسا ہے۔
وزیر خارجہ نے مغرب پر زور دیا کہ وہ اسلامی اصولوں اور کچھ پدرانہ معاشروں کے سماجی رویوں کے درمیان فرق کریں، زینو فوبیا اور اسلاموفوبیا کے حامی اور حقائق سے نظریں چرانے والے لوگ یہ فرق نہیں کریں گے کیونکہ وہ تفریق پر یقین رکھتے ہیں اور تفریق ظلم کی پہلی سیڑھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسلام میں ایک عورت ایک آزاد سماجی اور قانونی شناخت رکھتی ہے اور اسے شہری، سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی حقوق حاصل ہیں، ایک مسلمان عورت کو وراثت، طلاق اور بچوں کی حفاظت کے حقوق حاصل ہیں جو اسلام نے بہت سے دوسرے مذاہب سے پہلے فراہم کیے ہیں۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ اسلامی تاریخ میں حضرت خدیجہ (رضی االلہ عنہا)، حضرت عائشہ (رضی االلہ عنہا)، حضرت زینب بنت علی (رضی االلہ عنہا) اور حضرت رابعہ بصریؒ جیسی کئی نامور خواتین ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج بھی لاکھوں مسلم خواتین سیاست، تعلیم، صحت، سائنس اور تجارت سمیت متعدد شعبوں میں اپنا لوہا منوا رہی ہیں، جن میں انڈونیشیا کی پہلی مسلم خاتون صدر، تیونس کی وزیر اعظم، ترکیہ کی وزیر اعظم، کمپیوٹر سائنس دان انوشے انصاری اور سب سے کم عمر نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی خواتین نے بھی ملکی تاریخ میں شاندار کردار ادا کیا ہے، قائداعظم کی بہن ہماری جدوجہد آزادی اور جمہوریت کی جدوجہد میں سب سے آگے رہیں۔
10 مارچ کو وزیر خارجہ بلاول بھٹو اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے عالمی دن کے موقع پر ایک اور اعلیٰ سطح کی تقریب کی صدارت بھی کریں گے۔