• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

عمران خان قانون سے بھاگے رہے تو انہیں گرفتار کرکے لانا پڑے گا، وزیر داخلہ

شائع March 8, 2023
رانا ثنااللہ نے کہا کہ لاہور میں ہی آج عمرانی فتنے نے بھی برگر مارچ کا اعلان کیا ہوا ہے— فوٹو: ڈان نیوز
رانا ثنااللہ نے کہا کہ لاہور میں ہی آج عمرانی فتنے نے بھی برگر مارچ کا اعلان کیا ہوا ہے— فوٹو: ڈان نیوز

وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان اگر اسی طرح سے چھپے رہے، اگر وہ اسی طرح سے قانون سے بھاگے رہے تو انہیں گرفتار کرکے لانا پڑے گا۔

اسلام آباد میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے کہا کہ آج ملک کے مختلف شہروں میں خواتین اپنے مسائل کو اجاگر کرنے اور اپنے حقوق کے لیے عورت مارچ کا انعقاد کر رہی ہیں، اس کے ساتھ ہی عورت مارچ کو کاؤنٹر کرنے کے لیے حیا مارچ کی سرگرمی بھی کی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ لاہور میں ہی آج عمرانی فتنے نے بھی برگر مارچ کا اعلان کیا ہوا ہے، یہ وہی علاقہ ہے جہاں آج عورت مارچ ہو رہا ہے، حیا مارچ ہو رہا ہے، ساتھ ہی اسی علاقے میں فتنہ خان نے بھی مناسب سمجھا ہے کہ یہ اپنے فتنے کو بھی بیچ میں اجاگر کرے، اس کے لیے اس نے یہ برگر مارچ اور اس کی ریلی کا اعلان کیا ہوا ہے۔

’ایجنسیوں کی رپورٹ پر نگران پنجاب حکومت نے دفعہ 144 کا نفاذ کیا‘

ان کا کہنا تھا کہ ایسی صورتحال میں وہاں پر کوئی بھی واقعہ ہوسکتا ہے کیونکہ ان کے فتنہ مارچ میں، ان کے جلسوں میں بہت بری صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو خود ان کے لیے بھی شرمندگی کا باعث بنتی رہی ہے، ایسے میں کچھ عناصر پریشانی کا باعث بننے والی صورتحال پیدا کرسکتے ہیں۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ یہ ایجنسیوں کی رپورٹ تھیں جن کی بنیاد پر نگران پنجاب حکومت نے دفعہ 144 کا نفاذ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میری معلومات کے مطابق انہیں کہا گیا تھا کہ وہ اپنی ریلی کا روٹ فراہم کریں اور اپنے آپ کو ان حدود میں رکھنے کی یقین دہانی کرائیں، تاکہ مختلف سرگرمیوں کے پیش نظر وہاں پر کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔

’ٹیریان وائٹ، فارن فنڈنگ، توشہ خانہ کیسز میں عمران خان کو ہر ممکن ریلیف مل چکا‘

رانا ثنااللہ نے پی ٹی آئی پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ بدبخت عمرانی ٹولہ کسی قانون، کسی ضابطے کو تو خاطر میں لا تا نہیں ہے بلکہ ایسی بات پر تو یہ ایسا عجیب رویہ اپناتے ہیں کہ جس کی بنیاد پر پنجاب حکومت نے دفعہ 144 کا نفاذ کرنا مناسب سمجھا۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کا مقصد سیاسی سرگرمی نہیں کرنا بلکہ ماحول خراب کرنا ہے، پی ٹی آئی کو کہا گیا تھا کہ روٹ کو بدل لیں تو آپ کی سرگرمی بھی ہوسکتی ہے لیکن وہ بھی اسی طرف جانا چاہتے تھے جو عورت مارچ اور حیا مارچ کا روٹ تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالت نے عمران خان کو 13 تاریخ تک پیش ہونے کا وقت دیا ہے، امید ہے وہ پیش ہوں گے لیکن اگر وہ اسی طرح سے چھپے رہے اور اسی طرح سے قانون سے بھاگے رہے تو پھر ایک دن تو انہیں گرفتار کرکے لانا پڑے گا۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ ٹیریان وائٹ، فارن فنڈنگ، توشہ خانہ کیسز میں عمران خان کو ہر ممکن ریلیف مل چکا، اب وہ اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے، 13 مارچ کے بعد کسی قسم کی گنجائش نظر نہیں آرہی، اگر عمران خان سیاسی سرگرمیوں کے لیے فٹ ہے تو عدالتوں میں بھی حاضر ہونا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ نظام میں کوئی ایسا نہیں ہے جو عمران خان کی گرفتاری سے روک رہا ہو، گزشتہ سماعت پر عمران خان نے عدالت پر جو چڑھائی کی ہے اس سے وہ بے نقاب ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک طرف کہا جاتا ہے کہ 70 سال عمر ہے، دوسری جانب ٹانگ پرپلستر ہے اور چل نہیں سکتا، دوسری طرف سیاسی سرگرمیوں کے لیے ٹھیک ہے لیکن عدالتوں میں پیشی سے قاصر ہے، عمران خان کو اپنی اولاد، توشہ خانہ، فرح گوگی کی کرپشن کا جواب تو دینا پڑے گا۔

’ہمارے کیسز پر نوٹس نہیں لیا گیا، دوسری جانب کان پر خارش ہو تو ازخود نوٹس بن جاتا ہے‘

رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ عمران خان کا اپنا عمل تو مدینہ کی ریاست کے برعکس ہے، یہ بتائیں کہ وہ کہاں پر مدینہ کی ریاست قائم کر نا چاہتے تھے؟

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے پاس تینوں ہائی پروفائل کیسز میں پیش ہو کر دفاع کی پوزیشن بھی نہیں ہے، اب سارے بہانے اور ریلیف دینے کے تمام تر عندیے ختم ہوچکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کے کیسز میں غیر جانبداری نظر آنی چاہیے، انصاف سب کے لیے مساوی ہونا چاہیے۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ عمران خان کو عدالتوں میں پیش ہو کر جواب دینا چاہیے، ان کو عدالتوں میں ریلیف مل رہا ہے، درخواست بعد میں داخل ہوتی ہے، سماعت پہلے شروع ہوجاتی ہے اور ریلیف بنتا ہوں یا نہ بنتا ہوں، وہ ریلیف آپ کو مل جاتا ہے جو آپ مانگتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے بہت سے ایسے کیسز تھے جن پر ازخود نوٹس بنتا تھا لیکن نہیں بنا دوسری جانب کان پر خارش بھی ہوتو ازخود نوٹس بن جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کسی قیمت پر اپنی فتنہ گری سے پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں، اب عمران خان محدود ہوجائے گا، امید رکھتے ہیں کہ عمران خان کو مزید ریلیف نہیں ملے گا۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ اگر عمران خان ایسے ہی بیڈ کے نیچے چھپا رہے گا تو پھر کیسے گرفتار کیا جاسکتا ہے، اگر اسی طرح سے قانون سے چھپے رہے تو آخری آپشن گرفتار کر کے لانا ہی بنتا ہے۔

’ہم نے عمران خان کو بھاگنے، دوڑنے کا موقع دیا ہوا ہے‘

انہوں نے کہا کہ چیئرمین نیب کے استعفے کے بعد بہت سے ناموں میں سے ایک اچھے اور بے داغ کریئر رکھنے والی شخصیت کا انتخاب ہوا ہے، امید ہے کہ وہ انصاف اور احتساب کے تقاضے پورے کریں گے۔

رانا ثنااللہ خان نے کہا کہ عمران خان کے پاس 13 مارچ کے بعد مزید کوئی گنجائش نہیں ہوگی، عمران خان آہستہ آہستہ اپنے انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ فرح گوگی کی کرپشن کیسز پڑے ہوئے ہیں تو چیئرمین نیب کام نہیں کرے گا تو پھر کوئی اور آکر یہ کام کرےگا، اب عمران خان کو اپنے انجام کو پہنچنا ہے، اس کے بعد ہی ملک ترقی کرسکے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ نظام میں کوئی ایسا نہیں ہے جو عمران خان کی گرفتاری سے روک رہا ہو، ہم نے بھاگنے اور دوڑنے کا موقع دیا ہوا ہے، گزشتہ سماعت پر عمران خان نے عدالت پر جو چڑھائی کی ہے اس سے وہ بے نقاب ہوا ہے۔

’فیض حمید کے خلاف انکوائری جاری ہے، پیش رفت ہوئی تو سامنے آجائےگی‘

وزیر داخلہ نے کہا کہ ایک عام آدمی کو یہ سہولت نہیں ہوتی کہ گھر بیٹھے ہوئے قبل ازگرفتاری ضمانت ہوجائے۔

ایک سوال پر کہ چیف آگنائزر مسلم لیگ (ن) مریم نواز نے مطالبہ کیا ہے کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کا کورٹ مارشل ہونا چاہیے، انہوں نے جواب دیا کہ کورٹ مارشل کسی سویلین ادارے نے تو کرنا نہیں ہے، وہ تو ایک مطالبہ ہے، سیاست دانوں کا کام ہوتا ہے اپنے مطالبات کرنا اور اپنا مؤقف دینا لیکن جن کے پاس اختیار ہوتا ہے تو ان کا کام ہوتا ہے کہ وہ کارروائی کریں یا نہ کریں۔

انہوں نے کہا کہ کورٹ مارشل وزارت داخلہ نے نہیں بلکہ جی ایچ کیو نے کرنا ہے۔

ایک سوال پر کہ فیض حمید اور ان کے بھائی کے خلاف اثاثوں کے حوالے سے متعلق تحقیقات جاری ہیں، اس پر وزیر داخلہ نے کہا کہ تحقیقاتی ادارے انکوائری کر رہے ہیں،کوئی پیش رفت ہوئی تو سامنے آجائےگی۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024