ہفتہ وار مہنگائی کی شرح 41 فیصد سے متجاوز
وفاقی ادارہ شماریات کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق سالانہ بنیادوں پر ہفتہ وار مہنگائی 41.07 فیصد سے تجاوز کرگئی ہے جس میں بڑا حصہ خوردنی تیل، چینی اور سبزیوں کا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مہنگائی کی شرح، جس کی پیمائش حساس قیمت انڈیکس (ایس پی آئی) سے کی جاتی ہے، اب بھی بلند ہے اور اس میں مزید اضافہ اس وقت ہوگا جب بجلی کے نرخوں میں اضافے کا مکمل اثر صارفین تک پہنچے گا۔
اگرچہ ہفتہ وار مہنگائی 2 مارچ کو ختم ہونے والے ہفتے میں 0.30 فیصد کم ہوئی لیکن کیلے، چکن، چینی، کوکنگ آئل، گیس اور سگریٹ مہنگے ہونے کی وجہ سے مہنگائی زیادہ رہی۔
اس میں شمار کی گئی 51 اشیا میں سے 32 اشیا کی قیمتوں میں اضافہ، 9 اشیا کی قیمتوں میں کمی جبکہ 10 اشیا کی قیمتوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔
زیر جائزہ ہفتے کے دوران جن اشیا کی قیمتوں میں ایک سال قبل کے اسی ہفتے کے مقابلے میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا ان میں پیاز (311.17 فیصد)، سگریٹ (165.86 فیصد)، گیس (108.38 فیصد)، ڈیزل (93.82 فیصد)، پیٹرول (77.89 فیصد)، انڈے (77.83 فیصد) چاول اری-6/9 (76.96 فیصد)، ٹوٹا باسمتی چاول (75.55 فیصد)، دال مونگ (73.30 فیصد)، کیلے (72.66 فیصد)، چکن (64.70 فیصد) اور چائے لپٹن ( 64.53 فیصد) شامل ہیں۔
اس کے برعکس سالانہ اعتبار سے جن اشیا کی قیمتوں میں کمی دیکھی گئی ان میں ٹماٹر (56.29 فیصد)، مرچ پاؤڈر (7.42 فیصد) شامل ہیں۔
اسی طرح ہفتہ وار بنیادوں پر جن اشیا کی قیمتوں میں سب سے زیادہ تبدیلی دیکھی گئی ان میں کیلے (7.34 فیصد، انرجی سیور (3.33 فیصد)، گھی فی کلو (2.48 فیصد)، گُڑ (2.03 فیصد)، پکی دال (1.87 فیصد)، چائے لپٹن (1.79 فیصد)، ماچس (1.66 فیصد)، پرنٹ شدہ لان (1.52 فیصد)، کوکنگ آئل 5 لیٹر (1.45 فیصد) اور چینی (1.07 فیصد) شامل ہیں۔
وہ مصنوعات جن کی قیمتوں میں گزشتہ ہفتے کے مقابلے میں سب سے زیادہ کمی دیکھی گئی ان میں پیاز (13.24 فیصد)، انڈے (6.11 فیصد)، لہسن (4.24 فیصد)، چکن (2.00 فیصد)، ٹماٹر (0.5 فیصد)، دال چنا (0.38 فیصد)، آلو(0.33 فیصد)، ایل پی جی (1.84 فیصد) اور پیٹرول (1.80 فیصد) شامل ہیں۔
حکومت آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت سخت اقدامات کر رہی ہے جس سے معیشت مستحکم ہونے اور مہنگائی میں اضافے کا خدشہ ہے، پالیسی ریٹ میں اضافے اور جنرل سیلز ٹیکس 17 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کرنے سے اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگا۔
ایندھن اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ، سبسڈیز کا خاتمہ اور مزید ٹیکسز لگا کر حکومت پہلے ہی کئی اقدمات چکی ہے جن کے نتیجے میں حکومت سالانہ مہنگائی کی شرح کو 26 فیصد سے بڑھا کر 31 فیصد کر دیا ہے۔