آئی ایم ایف کو راضی کرنے کیلئے حکومت نے آخری کڑوی گولی بھی نگل لی
پاکستان نے 24گھنٹوں کے اندر بے مثال طور پر عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ اسٹاف کی سطح کے معاہدے (ایس ایل اے) کے لیے درکار تمام پیشگی اقدامات مکمل کر لیے تاکہ دیوالیہ ہونے کو روکا جاسکے اور طویل عرصے سے تاخیر کا شکار ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کی قسط کو محفوظ بنایا جا سکے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ دو دنوں میں شرح تبادلہ کو 25 روپے فی ڈالر کی کمی کے ساتھ آزادانہ طور پر منتقل ہونے کی اجازت ملنے، اسٹیٹ بینک کی پالیسی میں غیر معمولی 300 بیسس پوائنٹس اضافے اور حکومت کی جانب سے خصوصی سرچارج کے ذریعے مستقل بنیادوں پر بجلی کے نرخوں میں 10 فیصد اضافہ تقریباً جاری رکھنے کے اعلان کے بعد پالیسی اقدامات مکمل ہوئے۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ فریقین اب مشترکہ طور پر میمورنڈم آف اکنامک اینڈ فنانشل پالیسی (ایم ای ایف پی) کے متن اور پروگرام کے نفاذ کے اہداف کو حتمی شکل دینے کے لیے کام کر رہے ہیں جنہیں منظوری کے لیے آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کے سامنے پیش کیا جا سکتا ہے۔
اس میں میکرو اکنامک فریم ورک پر متفق ہونے کے لیے پروگرام کی نگرانی کے ٹولز جیسے کارکردگی کے معیار، اشارہ جاتی اہداف اور اسی طرح کے رپورٹنگ بینچ مارک شامل ہوں گے۔
آئی ایم ایف مشن نے وعدہ کیا ہے کہ وہ تقریباً 6 ہفتوں کے معمول کے عمل کے خلاف کیس کو ’تیز ترین انداز میں‘ ایگزیکٹو بورڈ کے پاس لے جائے گا۔
اب جب کہ پروگرام کے نفاذ کے لیے حکومتی وعدے واضح ہیں اور ضروری پالیسیوں کے بارے میں ابہام دور ہو گیا ہے، دونوں فریق ملک کی بیرونی ادائیگیوں کو رواں رکھنے کے لیے مالیاتی بہاؤ کے لیے دو طرفہ قرض دہندگان اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ساتھ مشترکہ طور پر کام کر رہے تھے۔
باخبر ذرائع نے بتایا کہ اس مرحلے پر یہ کام جاری ہے اور درحقیقت فنڈ اب ان رابطوں میں سہولت فراہم کر رہا ہے۔
ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ اس عمل میں آئی ایم ایف کا مشاورتی کردار تمام شراکت داروں کو اعتماد فراہم کر رہا ہے کہ پالیسیاں اقتصادی نمو اور ترقی کے لیے پائیدار ہیں۔
اسٹاف کی سطح کے معاہدے میں تاخیر کرنے والے عوامل مستقل سرچارج کے ذریعے پاور سیکٹر کی پائیداری اور ایکسچینج ریٹ کی مکمل آزادانہ نقل و حرکت سے متعلق تھے۔
حکومت نے بجلی کے صارفین پر 3.23 روپے فی یونٹ اسپیشل سرچارج جاری رکھنے کی منظوری دے دی ہے تاکہ آئندہ مالی سال میں قرض کی ادائیگی کے لیے 3 کھرب 35 ارب روپے حاصل کیے جاسکیں، روپے کے آزادانہ بہاؤ کی اجازت دی اور شرح سود کو 20 فیصد تک بڑھا دیا۔
پاور سیکٹر کے سرچارج کو اس شعبے کے خود کفیل ہونے میں مدد اور حکومتی مالیات کو صرف بجٹ کی سبسڈی تک محدود کرنے کے لیے اہم سمجھا جاتا تھا۔
9 فروری کو آئی ایم ایف کے عملے کے مشن کے پاکستان سے واپس جانے کے بعد سے اب تمام معاملات پر دونوں فریق کے درمیان مفاہمت ہوگئی ہے۔
آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی کامیاب تکمیل پر پاکستان 894 خصوصی ڈرائنگ رائٹس (ایس ڈی آرز) کا حقدار ہو گا جس کی مالیت ایک ارب 20 کروڑ ڈالر ہے۔
یہ قسط گزشتہ سال اکتوبر سے التوا کا شکار تھی کیونکہ حکومت کی جانب سے شرح تبادلہ کی آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت دینے، شرح سود میں اضافے، اضافی سرچارجز اور دیگر ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے بجلی کی سپلائی کی پوری لاگت کی وصولی پر ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا جارہا تھا۔