پشاور ہائیکورٹ: پی ٹی آئی کے 24 سابق ارکان قومی اسمبلی نے استعفوں کی منظوری چیلنج کردی
پاکستان تحریک انصاف کے خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے 24 سابق ارکان صوبائی اسمبلی نے اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے اپنے استعفوں کی منظوری اور الیکشن کمیشن کی جانب سے ڈی نوٹیفکیشن کے خلاف پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سابق ارکان صوبائی اسمبلی نے عدالت میں 2 ایک جیسی درخواستیں دائر کیں جس میں اس معاملے پر اسپیکر قومی اسمبلی اور الیکشن کمیشن کے جاری کردہ 4 نوٹیفکیشنز کو معطل کرنے کی استدعا کی گئی۔
انہوں نے ان نوٹیفکیشنز کو معطل کرنے اور الیکشن کمیشن کو اپنی درخواستوں کے نمٹانے تک اپنے حلقوں میں ضمنی انتخابات نہ کرانے کے احکامات کی معطلی کے لیے عبوری ریلیف کا بھی مطالبہ کیا۔
درخواست گزاروں نے عدالت سے استدعا کی کہ اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے ان کے استعفے قبول کرنے کے عمل کو سپریم کورٹ کے فیصلوں کے مطابق قانون کی خلاف ورزی قرار دیا جائے، مذکورہ درخواستیں سابق ارکان قومی اسمبلی نے بیرسٹر گوہر خان کے توسط سے دائر کیں۔
خیال رہے کہ الیکشن کمیشن نے خالی نشستوں کو پُر کرنے کے لیے ضمنی انتخابات کے شیڈول کا پہلے ہی اعلان کر رکھا ہے اور مذکورہ 24 حلقوں میں پولنگ بالترتیب 16 اور 19 مارچ کو ہوگی۔
ایک درخواست ان 8 سابق ارکان قومی اسمبلی کی جانب سے دائر کی گئی جن کے استعفے اسپیکر نے 17 جنوری کو منظور کر لیے تھے اور اسی روز الیکشن کمیشن نے انہیں ڈی نوٹیفائی کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔
ان درخواست گزاروں میں سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، 5 سابق وفاقی وزرا پرویز خٹک، مراد سعید، عمر ایوب خان، علی امین خان، شہریار آفریدی اور سابق ایم این اے عمران خٹک شامل ہیں۔
دوسری درخواست مشترکہ طور پر 16 سابق ارکان قومی اسمبلی کی جانب سے پیش کی گئی جن کے استعفے اسپیکر نے 20 جنوری کو منظور کر لیے تھے اور الیکشن کمیشن نے اسی روز ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے انہیں ڈی نوٹیفائی کر دیا تھا۔
درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی نے درخواست گزاروں سمیت اس کے 123 ارکان قومی اسمبلی سے استعفے لیے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے پارٹی کی ہدایات پر عمل کیا اور سیاسی مقصد کے لیے اس وقت کی حزب اختلاف کی جماعتوں کے ساتھ نئے انتخابات کرانے کے لیے معاہدہ کیا تاکہ ملک میں جاری تعطل کو ختم کیا جائے اور عوام کے حقیقی مینڈیٹ کے ساتھ نئی حکومت تشکیل دی جا سکے۔
درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے 15 دسمبر کو اسپیکر قومی اسمبلی کو خط لکھا تھا جس میں ان سے تمام استعفے منظور کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا لیکن اسپیکر قومی اسمبلی نے 22 دسمبر کے جواب میں کہا تھا کہ وہ تصدیق کے لیے ایم این ایز کو انفرادی طور پر اپنے چیمبر میں مدعو کریں گے لیکن اس کے برعکس اسپیکر قومی اسمبلی نے انہیں اس تصدیق کے لیے کبھی نہیں بلایا۔
درخواست گزاروں کا کہنا تھا کہ سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی سربراہی میں پی ٹی آئی کے وفد نے 29 دسمبر کو اسپیکر سے ملاقات کی اور بتایا گیا کہ انفرادی تصدیق قانونی تقاضہ ہے، لہذا تمام ارکان قومی اسمبلی کو انفرادی طور پر بلایا جائے تاکہ ان کے استعفوں کی تصدیق کی جاسکے۔
ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے قائد حزب اختلاف، چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اور دیگر کا عہدہ مانگنے کے لیے اپنے ارکان قومی اسمبلی کی ایوان میں واپسی کا اعلان کیا، اسپیکر نے 35 ارکان قومی اسمبلی کے استعفے غیر قانونی طور پر منظور کیے اور 17 جنوری کو نوٹیفکیشن جاری کیا جبکہ 35 دیگر ارکان قومی اسمبلی کے استعفے 20 جنوری کو منظور کیے گئے۔
درخواست گزاروں نے مؤقف اختیار کیا کہ آئین کے آرٹیکل 64 کے تحت اسپیکر کا فرض ہے کہ وہ کسی رکن کا استعفیٰ وصول کرتے وقت ذاتی طور پر یہ معلوم کرے کہ آیا اس پر استعفیٰ دینے والے شخص کے دستخط ہیں، کیا یہ استعفے رضاکارانہ دور پر دیے گئے اور کیا استعفوں سے واقعی مستعفی ہونا مقصود تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب تک یہ تینوں تقاضے پورے نہیں ہو جاتے اس وقت تک استعفے مؤثر نہیں ہو سکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن بھی پابند ہے کہ وہ قومی اسمبلی کے اسپیکر کے فیصلے کو تسلیم نہ کرے جب تک کہ اس طے شدہ عمل کی پابندی نہ کی جائے۔
درخواست گزاروں نے مؤقف اختیار کیا کہ وہ اسپیکر قومی اسمبلی کے سامنے پیش نہیں ہوئے اس لیے ان کے استعفے منظور نہیں کیے جانے چاہیے تھے۔
سابق ارکان اسمبلی نے کہا کہ ’اجتماعی طور پر منظور کیے گئے استعفوں کو قانون کے تحت استعفوں کے طور پر نہیں سمجھا جا سکتا، ہمارے اس اقدام کا مقصد حکمرانوں کو ملک میں انتخابات کرانے پر مجبور کرنا تھا‘۔