• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm

پرویز الٰہی کی سیاست

شائع February 23, 2023

ہمارے ملک کی سیاست میں کوئی اس بات سے واقف نہ تھا کہ 1957ء میں ڈسٹرکٹ بورڈ گجرات میں بلا مقابلہ منتخب ہونے والا ایک رکن پاکستان کی قومی سیاست پر گہرے نقوش چھوڑے گا اور اس کا خاندان ملک پرحکمرانی بھی کرے گا۔ امر تسر میں تین کھڈیوں کے مالک دو بھائی اس قدر باوسائل ہوں گے کہ ایک سیاست میں بھرپور کر دار ادا کرے گا اور دوسرا کاروبار پر تمام توجہ مرکوز کیے رکھے گا۔

نت گاؤں گجرات کا یہ خاندان چوہدری ظہور الٰہی کی سیاست کے باعث مشہور ہوا۔ چوہدری ظہور الٰہی تعلق نبھانے اور لڑائی لڑنے کی دونوں صلاحیتوں سے خوب واقف تھے۔ انہوں نے کالا باغ کے امیر محمد خان، گورنر مغربی پاکستان کے ساتھ بھی دونوں طرح کے تعلق نبھائے اور یہی حال ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ رہا۔ پیر پگاڑا کے ساتھ بھی معاملات کچھ ایسے ہی رہے تاہم چوہدری ظہور الٰہی نے قومی اسمبلی کے الیکشن ہار کر اور جیت کر اپنا کر دار نبھانے کی ہرممکن کوشش کی۔

ان کے قتل سے قبل ہی 1977ء میں چوہدری شجاعت حسین کو صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ دیا گیا مگر انتخاب ہونے نا ہونے ایک برابر رہے اور خالی پولنگ اسٹیشن اپنی کہانی خود بیان کررہے تھے۔ 1983ء میں چوہدری پرویز الٰہی ڈسٹرکٹ کونسل گجرات کے چیئرمین تھے اور 1985ء کے صوبائی اسمبلی کا انتخاب بھی جیت گئے تھے۔ اس وقت بلدیاتی اور قومی و صوبائی اسمبلی پر بیک وقت الیکشن لڑنے کی پابندی نہ تھی۔

1985ء میں دل تو چاہتا تھا کہ وزیرِاعلیٰ بن جائیں تاہم میاں نواز شریف، ملک اللہ یار، چوہدری عبد الغفور اور بعض دیگر بھی امیدوار تھے۔ گورنر کے پاس وزیرِاعلیٰ نامزد کر نے کا اختیار تھا اور جنرل جیلانی نے میاں نوازشریف کو وزیرِاعلیٰ نامزد کروایا۔ میاں منظور وٹو اسپیکر بنے مگر ضلع کونسل کے چیئرمین بھی رہے۔

میاں نواز شریف کا اپنا طرز حکمرانی اور پسند و ناپسند تھی۔ وہ پیر پگاڑا اور محمد خان جونیجو کی مسلم لیگ کا رکن بننے سے انکاری تھے مگر سیاست کے تقاضے کچھ اور بھی ہوتے ہیں۔ 1986ء میں پرویز الٰہی نے وزیرِاعلیٰ کے خلاف زبان کھولی (اس کی تفصیل پھر کبھی تحریر کروں گا) اور پنجاب میں حکمران جماعت کے اندر واضح گروپ بندی ہوگئی۔ مخدوم الطاف احمد، ملک اللہ یار اور بعض دیگر اہم ارکان اس سفر میں شریک ہوئے۔ پیر پگاڑا اور جنرل ضیا الحق کی آشیرباد میاں نواز شریف کی بجائے پرویز الٰہی کی طرف تھی تاہم وزیرِاعظم محمد خان جونیجو کا اپنے قریبی ارکان کو کہنا تھا کہ جمہوریت کی کچی دیوار سے اینٹ نکالنا اس کو گرانے کے برابر ہے اس لیے وہ کسی صورت نواز شریف کو ہٹانے نہ دیں گے۔

چوہدری شجاعت حسین بیرون ملک سے واپس آئے تو انہوں نے اس آگ کو ٹھنڈا کیا، یوں معاملات میں پھر سدھار آنا شرع ہوا تو ضیا الحق نے کہا کہ میری عمر بھی نوازشریف کو مل جائے بعدازاں معاملات طے پائے اور محمد نواز شریف کو دورہ گجرات کی دعوت دی گئی ان کی گاڑی کو چلنے نہ دیا گیا بلکہ انہیں کندھوں پر اٹھا کر سفر طے کروایا گیا۔ جب شہباز شریف پہلی بار وزیرِاعلیٰ بنے تو بقول پرویز الٰہی ان کے ساتھ وعدہ کیا گیا تھا مگر ایسا نہ ہوسکا اور وہ اسپیکر بنائے گئے۔

چوہدری پرویز الٰہی اور چوہدری شجاعت حسین— تصویر: اے ایف پی/ فائل
چوہدری پرویز الٰہی اور چوہدری شجاعت حسین— تصویر: اے ایف پی/ فائل

1999ء کے مارشل لا کے نفاذ کے بعد یہ بات بہت واضح تھی کہ مسلم لیگ کے اندر ذہنی تفریق ہے اور چوہدری صاحبان کی رائے ہے کہ مارشل لا سے لڑنے کی بجائے مصالحت کا راستہ نکالا جائے۔1977ء کے مارشل لا کے بعد بھی اس خاندان نے مارشل لا کا ساتھ دینے کی کوشش کی تھی۔ ایک طرف مقدمات کا سامنا تھا دوسری طرف تعلقات استوار کرنے کے لیے بھی یار دوست کہہ رہے تھے۔

میاں نواز شریف کی جلاوطنی سے قبل ہی یہ محسوس ہوگیا تھا کہ مسلم لیگ اب ایک ہوکر نہیں رہ سکتی۔ جنرل مشرف کی پہلی خواہش راجا ظفر الحق تھے جو پہلے بھی مارشل لا ٹیم کے اوپننگ بیٹسمین رہ چکے تھے، دوسری ترجیح میاں محمد اظہر اور تیسری سید فخر امام تھے۔ میاں اظہر کے لیے یہ سب کام کرنا آسان نہ تھا اور نہ ہی وہ اس میں پورے اتر سکے اس لیے چوہدری صاحبان کو ان کے ساتھ منسلک کرکے کافی بااختیار بنادیا گیا۔

پرویز الٰہی کا میاں اظہر سے بھی اختلاف ہوا (تفصیل پھر کبھی سہی) میر ظفر اللہ جمالی سے بھی ہوا، سلیم سیف اللہ سمیت کئی لوگوں سے ہوا اور شوکت عزیز کے ساتھ تو معمول تھا۔

2013ء میں شریف خاندان اور چوہدری صاحبان کے درمیان معاملات طے ہوتے ہوتے رہ گئے تھے اور چوہدری شجاعت ہر صورت قابل قبول تھے بالآخر جب معاملات طے نہ ہوئے تو پرویز الٰہی جن کو محترمہ اپنے قتل سے قبل اپنے مبینہ قاتلوں میں شامل کرکے دنیا سے رخصت ہوئی تھیں انہوں نے مرکز سے مسلم لیگ (ن) کے الگ ہونے کے بعد آصف علی زرداری سے معافی مانگی اور ق لیگ مرکزی حکومت میں شامل ہوئی۔ یوں پرویز الٰہی غیر آئینی اور غیر قانونی نائب وزیرِاعظم بن گئے۔

2008ء میں مسلم لیگ (ق) کو کافی نشستیں مل جاتیں اگر محترمہ بے نظیر بھٹو قتل نہ ہوتیں۔ پرویز الٰہی تب وزیرِاعظم بنناچاہتے تھے اور اپنے صاحبزادے کو وزیرِاعلیٰ بنانا چاہتے تھے اس لیے انہوں نے متوقع امیدواروں کے خلاف آزاد امیدواروں کی لائن لگادی تھی۔ اگر محترمہ شہید نہ ہوتیں توپرویز مشرف کے ساتھ اقتدار کی تقسیم کا فارمولا بن چکا تھا۔ پاکستان مسلم لیگ (ق) صدر پرویز مشرف کو آل پاکستان مسلم لیگ کے نام پر لوٹائی جانی تھی، مگر اس سے بھی انحراف کردیا گیا۔ پرویز مشرف کے پرنسل سیکریٹری طارق عزیز سے بھی بہت گہرے تعلقات گہرے اختلافات میں تبدیل ہوچکے تھے۔ آخر انہوں نے صدر زردارزی کے ساتھ اپنے معاملات طے کرنے تھے۔

بہرحال اب چوہدری پرویز الٰہی نے سب سے الگ تھلگ ہوکر اپنے محسن سیاسی رہبر، چچازاد بھائی اور بہنوئی چوہدری شجاعت حسین کے ساتھ بھی اختلافات پیدا کرلیے ہیں۔ مسلم لیگ (ق) کا دستور پوری طرح چوہدری شجاعت کا ساتھ دیتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے ایکٹ کے تحت کوئی شخص دو سیاسی جماعتوں کا بیک وقت رکن نہیں رہ سکتا۔ پرویز الٰہی نے تحریک انصاف کا صدر بننا چاہا، مصیبت میں گھری پی ٹی آئی نے ایسا کر نے کا فیصلہ کرلیا لیکن صدر تو مخدوم جاوید ہاشمی بھی تھے۔۔۔

فرض کریں عمران خان نااہل ہو جاتے ہیں تو کیا شاہ محمود قریشی یا اسد عمر پارٹی کی سربراہی سنبھالیں گے۔ مزاروں پر اکٹھا ہونے والا نذرانہ سیاسی تحریک پر نہیں خاندان پر خرچ ہوتا نظر آتا ہے اور اسد عمر کے بارے میں کیا بات کی جائے۔ اب پرانی والی اے ٹی ایم بھی نہ چل سکے گی۔

مونس الٰہی کے پاس این آئی سی ایل اور کئی دوسری اے ٹی ایم موجود ہیں وہی ضروریات پوری کریں گے۔ لوگ بھی اسٹیج پر جانے کے لیے اب 3، 3 لاکھ روپے فی کس دیں گے۔ اگلے انتخابات میں اخراجات کو پورا کرنے والا اپنی مرضی کر نا چاہے گا۔۔۔ لیکن کیا ایسا کرسکے گا؟

جو کچھ فواد حسین کے بارے کہا گیا جانے اس کا رنگ روپ کیا ہوگا۔ ایک بات طے ہے کہ پارٹی پر قبضہ منتہائے مقصود ہوسکتا ہے لیکن یہ منزل کس کو ملے گی؟ نا اہلی، جیل، انتشار اور ملک میں بے یقینی کم ہونے کے بعد ہی صورت حال واضح ہوگی۔

اب جبکہ سپریم کورٹ نے سوموٹو نوٹس بھی لے لیا ہے اور وکلا بھی آئین کی دفعہ 209کا ذکر کررہے ہیں اور مسلم لیگ (ن) کے سربراہ بھی مخصوص بینچ کے پاس مقدمات نہ لگانے کا مطالبہ کررہے ہیں تو کیا پھر ایک وکلا تحریک چل سکتی ہے؟ اس کے مقاصد کون حاصل کرے گا؟

وفاق اکائیوں کی بنیاد پر قائم ہے اور صوبائی خود مختاری بھی ایک بڑا مسئلہ رہ چکی ہے۔ وسائل کا نہ ہونا خطرات کی گھنٹی بجا رہا ہے۔ اللہ خیر کرے، معاملات گھمبیر اور ہمارا رویہ غیر ذمہ دارانہ اور غیر سنجیدہ ہے، ہم صرف اقتدار چاہتے ہیں۔ مجھے تو پرویز الٰہی وزیرِاعظم بنتے نظر نہیں آتے اور مونس الٰہی وزیرِاعلیٰ بھی بن نہ سکیں گے۔

جیل بھرو تحریک کی کامیابی کا امکان نظر نہیں آرہا تاہم قیدیوں کو چونکہ 3 ایم پی او کے تحت گرفتار کیا جارہا ہے تو 90 دن قید تو اس دفعہ کے تحت عام ہوتی ہے۔

عظیم چوہدری

عظیم چوہدری سینئر صحافی اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ کا ای میل ایڈریس ہے [email protected] اور آپ ٹوئٹر پر یہاں MAzeemChaudhary@ ان سے رابطہ کرسکتے ہیں

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024