کابینہ اراکین تنخواہیں اور مراعات نہیں لیں گے، یوٹیلیٹی بلز خود ادا کریں گے، وزیراعظم
وزیراعظم شہباز شریف نے کفایت شعاری سے متعلق اقدامات کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمام وفاقی وزرا، مشیر ، وزرائے مملکت اور معاونین خصوصی نے رضاکارانہ طور پر تنخواہیں اور مراعات نہ لینے اور گیس، بجلی سمیت دیگر بلز اپنے جیب سے ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اسلام آباد میں وفاقی کابینہ کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے وفاقی کابینہ میں کفایت شعاری سے متعلق بتایا کہ آج کابینہ میں ڈھائی گھنٹے کی بحث کے بعد ہم نے متعدد فیصلے کیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس حکومت کے تمام وفاقی وزرا، مشیر ، وزرائے مملکت، معاونین خصوصی نے رضاکارانہ طور پر تنخواہیں اور مراعات نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
کفایت شعاری کے تحت اہم اقدامات
- وفاقی وزرا، مشیر، وزرائے مملکت، معاونین خصوصی تنخواہیں اور مراعات نہیں لیں گے
- تمام وزرا گیس اور بجلی سمیت یوٹیلٹی بلز اپنی جیب سے ادا کریں گے
- کابینہ اراکین سے لگژری گاڑیاں واپس لے کر نیلام کی جائیں گی
- وزرا کو ضرورت کے تحت سیکیورٹی کیلئے ایک گاڑی دی جائے گی
- وفاقی وزرا اندرون اور بیرون ملک اکانومی کلاس میں سفر کریں گے، معاون عملے کو بیرون ملک دورے کی اجازت نہیں ہوگی
- بیرون ملک دوروں کے دوران کابینہ اراکین 5 اسٹار ہوٹلوں میں قیام نہیں کریں گے
- تمام وزارتوں، ذیلی ماتحت دفاتر، ڈویژن، متعلقہ محکموں کے جاری اخراجات میں 15 فیصد کٹوتی کی جائے گی
- جون 2024 تک تمام لگژری اشیا کی خریداری پر مکمل پابندی، ہر طرح کی نئی گاڑیوں کی خریداری پر مکمل پابندی ہوگی
- وفاقی وزارتوں اور ڈویژن میں سینیئر افسران سے سرکاری گاڑیاں واپس لی جائیں گی
- سفر، قیام و طعام کے اخراجات میں کمی کے لیے زوم میٹنگ کو ترجیح دی جائے گی
- تمام سرکاری تقاریب میں کھانے کے لیے سنگل ڈش اپنائی جائے گی
- سرکاری افسران سے انگریز کے زمانے کے بنے بڑے اور شاہانہ گھر خالی کرائے جائیں گے، وہ زمین فروخت کی جائے گی
- بجلی بچت پلان پر عمل نہ کرنے والی مارکیٹس اور بڑے شاپنگ مالز کی بجلی منقطع ہوگی
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ تمام وزرا گیس، بجلی وغیرہ کے بل اپنی جیب سے ادا کریں گے، کابینہ اراکین کے زیر استعمال تمام لگژری گاڑیاں واپس لی جارہی ہیں جن کو نیلام کیا جائے گا، جہاں ضرورت ہوگی، وہاں وزرا کو سیکیورٹی کے لیے صرف ایک گاڑی دی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی وزرا اندرون و بیرونی ملک اکانومی کلاس میں سفر کریں گے جبکہ معاون عملے کو بیرون دوروں پر جانے کی اجازت نہیں ہوگی، بیرون ملک دوروں کے دوران کابینہ ارکان 5 اسٹار ہوٹل میں قیام نہیں کریں گے۔
وزیراعظم نے کہا کہ تمام وزارتوں، ذیلی ماتحت دفاتر، ڈویژن، متعلقہ محکموں کے اخراجات میں 15 فیصد کٹوتی کی جائے گی، پرنسپل اکاؤنٹنگ افسران اس فیصلے کے نتیجے میں اپنے بجٹ میں ضروری ردوبدل کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ جون 2024 تک تمام لگژری اشیا اور ہر طرح کی نئی گاڑیوں کی خریداری پر مکمل پابندی ہوگی۔
وزراعظم نے کہا کہ سرکاری افسران کو صرف ناگزیر بیرونی ممالک دوروں کی اجازت ہوگی جو کہ اکانومی کلاس میں سفر کریں گے اور معاون عملہ ساتھ نہیں جائے گا اور نہ ہی 5 اسٹار ہوٹل میں قیام کریں گے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ وفاقی حکومت کی وزارتوں اور ڈویژن میں ان سینیئر افسران سے سرکاری گاڑیاں واپس لی جائیں گی جو کہ پہلے ہی کار مونٹائزیشن حاصل کر رہے ہیں لہٰذا اس چیز کو بالکل ختم کیا جارہا ہے اور جو لوگ غلط استعمال کریں گے ان کے خلاف کارروائی ہوگی۔
وزیراعظم نے کہا کہ سرکاری افسران کے پاس موجود سیکیورٹی گاڑیاں واپس لی جائیں گی، وزیر داخلہ کی سربراہی کمیٹی میں کیش ٹو کیش بنیاد اور درپیش سنگین خطرات کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ تعداد سے متعلق اجازت دینے کا فیصلہ کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ کابینہ کا کوئی رکن، عوامی نمائندہ یا سرکاری افسر لگژری گاڑی استعمال نہیں کرے گا، سفر، قیام و طعام کے اخراجات میں کمی کے لیے ٹیلی کمیونی کیشن کو ترجیح دی جائے گی، مثلاً ملکی سطح پر کوئی ایسی میٹنگ یا کانفرنس جس سے کوئی سیکیورٹی خطرہ نہیں ہے تو اس کے لیے زوم میٹنگ کانفرنس کو ترجیح دیں گے تاکہ سفری اخراجات بچائے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت میں کوئی بھی نیا شعبہ تشکیل نہیں دیا جائے گا، آئندہ دو سال تک کوئی انتظامی یونٹ، ڈویژن، ضلع، سب ڈویژن یا تحصیل کی سطح پر نہیں بنایا جائے گا۔
وزیراعظم نے کہا کہ سنگل ٹریژری اکاؤنٹ بنایا جائے گا جس پر وزارت خزانہ نے کام کا آغاز کردیا ہے اور اس پر فوری عمل درآمد ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ بجلی اور گیس کی بچت کے لیے گرمیوں میں دفاتر کھولنے کا وقت صبح 7 بجے رکھنے کی تجویز کو منظور کیا گیا ہے اور کم توانائی سے چلنے والے برقی آلات کا استعمال کیا جائے گا۔
شہباز شریف نے کہا کہ اس بات پر فوری طور پر عمل کیا گیا ہے کہ سرکاری افسر یا حکومتی عہدیدار کو ایک سے زائد سرکاری پلاٹ نہیں دیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ پولیس اور دیگر سرکاری افسران سے وہ سرکاری گھر خالی کرائے جائیں گے جو انگریز کے زمانے کے بنے بڑے اور شاہانہ گھروں میں مقیم ہیں اور اس سلسلے میں وزیر قانون کی سربراہی میں کمیٹی بنائی گئی ہے جو کابینہ کو مکمل پلان دے گی جس میں ان افسران کے لیے ٹاؤن ہاؤسز تعمیر کیے جائیں گے اور تمام سہولیات کے ساتھ اچھے گھر دیئے جائیں گے جبکہ موجودہ گھروں کی زمینوں کو بیچ کر اربوں روپے کے وسائل جمع کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ تمام سرکاری تقاریب میں کھانے کے لیے سنگل ڈش اپنائی جارہی ہے اور چائے کا موقع ہوگا تو صرف چائے اور بسکٹ دیے جائیں گے، تاہم غیر ملکی مہمانوں کے لیے یہ پابندی لاگو نہیں ہوگی۔
’آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے پا جائیں گے‘
وزیراعظم شہباز شریف نے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات آخری مراحل میں ہے، توقع ہے کہ جلد ہی آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے پاجائیں گے اور اس کے نتیجے میں مزید مہنگائی ہوگی۔
وزیراعظم نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ تقریباً تمام شرائط پوری کرلی ہیں جس میں آئی ایم ایف نے کچھ سبسڈیز ختم کرنے کو کہا ہے اور کہا گیا ہے کہ غریب کو سبسڈی دیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تاریخ میں غریب طبقے نے ہمشیہ قربانی دی ہے، 1965 کی جنگ میں مالی معاملات میں مشکل آئی تو غریب آدمی نے قربانی دی اور اگر زلزلے، سیلاب آئے تو غریب آدمی اور یتیم لوگوں کی زندگی تنگ ہوگئی۔
انہوں نے کہا کہ اشرافیہ اور حکومتوں نے وہ حصہ نہیں ڈالا جو ان کو دینا چاہیے تھا جس کی وجہ سے آج تک صرف غریب لوگ ہی پستے آرہے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ غریب آدمی علاج کرانے کے لیے بھی پریشان ہوتا ہے اور جس دور میں علاج مفت ہوا اس کے بعد آنے والے دور میں مفت علاج ختم کردیا۔
انہوں نے کہا کہ وزیر خزانہ نے بتایا ہے کہ آئی ایم ایف سے کم آمدنی والے لوگوں کے لیے بھی 40 ارب روپے منظور ہوئے ہیں جو ان پر خرچ ہوں گے جبکہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں 25 فیصد اضافہ کیا جارہا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ مشکلات سے نکلنے کے لیے سیاسی حکومت اور اداروں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔
وزیراعظم نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ کے وقت کچھ مزید اقدامات کیے جائیں گے جو کہ خساروں میں کمی لانے سے متعلق ہیں، مزید کہا کہ میری اور کابینہ کی چیف جسٹس پاکستان، چاروں صوبوں کے ہائی کورٹس کے چیف جسٹس اور چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ سے بھی پرزور طور پر یہ درخواست ہے کہ اپنے اداروں اور حکومت میں اسی نوعیت کے فیصلوں کو بروئے کار لائیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ بچت وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اور چاہے ایک پائی کیوں نہ ہو وہ پاکستان کے عوام کا حق ہے اس لیے اس میں جتنی کاوش کریں گے وہ کم ہوگی۔
وزیراعظم نے مزید کہا کہ توانائی کی بچت کے لیے ہم نے جو منصوبہ بنایا تھا اس پر عمل نہیں ہوا، لہٰذا آج سے تمام حکومتوں کو پیغام دیں گے کہ اگر اس عمل میں مزید تاخیر ہوئی تو شام کو ساڑھے 8 بجے کے بعد وہ اقدامات کرنے پر مجبور ہوں گے جس سے ان مارکیٹس اور بڑے شاپنگ مالز کی بجلی منقطع ہوگی۔
’توشہ خانہ سے 300 ڈالر تک کا تحفہ رکھنے کی اجازت‘
انہوں نے توشہ خانہ کے تحائف پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی کابینہ نے مشترکہ طور پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ قانونی معاملات پر عمل کرتے ہوئے 300 ڈالر تک کا تحفہ وہ رکھ سکیں گے اور اس سے اوپر کا تحفہ توشہ خانہ میں جمع ہوجائے گا جبکہ توشہ خانہ کا ریکارڈ قوم کے سامنے رکھا جائے گا۔
ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ ان اقدامات سے سالانہ 2 سو ارب روپے کی بچت ہوگی اور اگر صوبائی حکومتیں اس پر عمل کریں گی تو مزید بچت ہوگی۔
’صدر کو غیرآئینی حرکت پر خط لکھنے کا فیصلہ‘
وزیراعظم نے کہا کہ کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ میں صدر پاکستان کو غیرآئینی حرکت کرنے پر خط لکھوں گا کیونکہ صوبوں میں انتخابات کرانے کی تاریخ دینے کا ان کے پاس کوئی اختیار نہیں تھا۔
انہوں نے کہا کہ صدر (عارف علوی) نے نہ صرف آج غیرآئینی حرکت کی ہے بلکہ آج سے 9 ماہ پہلے بھی وہ غیرآئینی حرکت کا حصہ تھے جب اس وقت کے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر نے امریکا کا بہانہ بناکر اسمبلی کو توڑا تو اس میں بھی صدر پاکستان شامل تھے۔
وزیراعظم نے کہا کہ اس معاملے پر کابینہ کی طرف سے خط لکھ کر پرزور مذمت کی جائے گی اور اس کے علاوہ عمران خان کی طرف سے 9 ماہ تک امریکی بیانیہ بناکر تعلقات خراب کرنے پر آئینی و قانونی طریقہ اپنائیں گے۔
وزیراعظم کا کابینہ اجلاس سے خطاب
قبل ازیں وزیراعظم شہباز شریف نے کابینہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ کفایت شعاری کے لیے ہمارے مشترکہ اقدام سے غریب شخص کو یہ احساس ضرور ہوگا کہ آج سیاستدان اور بیوروکریٹ صرف دکھانے کے لیے نہیں مگر دل سے کفایت شعاری، سادگی اور تنگی برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ قوم کڑے امتحان اور چیلنج سے گزر رہی ہے اس لیے ہم سب کو مل کر کفایت شعاری کرنی چاہیے۔
شہباز شریف نے کہا کہ ہر دور کی مشکلات میں نہ چاہتے ہوئے بھی غریب نے قربانی دی ہے، غریب مہنگائی میں پسا، بچوں کو ایک وقت کی روٹی دینے پر مجبور ہوا اور غریب شخص عید جیسے مواقع پر دوائی اور دودھ کے پیسوں سے بچوں کے لیے کپڑے خریدنے پر مجبور تھا۔
انہوں نے کابینہ کے شرکا سے مخطاب ہوکر کہا کہ یقیناً آج کفایت شعاری کی جو پریزینٹیشن پیش کی جارہی ہے وہ عام آدمی یا یتیم انسان کو خوش نہیں کر سکتی اور نہ ہی اس کے لیے مہنگائی کو کم سکے گی مگر اس کے اندر 75 برس سے ملک میں جو کچھ ہوتا رہا اس سے اس کا غصہ کم ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ غریب آدمی کی تنگی یہ کہ اس کے پاس سو روپے ہو اور اسے یہ فیصلہ کرنا ہو کہ وہ اپنی بیمار ماں کے لیے دوائی لے یہ بچوں کی کتابیں خریدے مگر اس تناظر میں ہمارے لیے تنگی یہ ہوگی کہ اگر ہمیں سرکاری طور پر باہر جانے کے لیے فرسٹ کلاس یا بزنس کلاس سفر کی اجازت ہے تو ہمیں اگر اکانومی کلاس میں جانا پڑے گا تو اسے ترجیح دیں گے لیکن غریب کو درپیش تنگی اور اس کا کوئی موازنہ نہیں ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ آج وقت ہے کہ اس چیلنج کو قبول کرنے کے لیے کھڑے ہوں اور اللہ اور پاکستان کے نام پر کفایت شعاری کرکے دکھائیں۔
واضح رہے کہ 21 فروری کو قومی اسمبلی نے عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) کی شرط پر پیش کیا گیا ضمنی مالیاتی بل منظور ہونے کے بعد وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے کہا تھا کہ وزیر اعظم حکومتی اخراجات میں واضح کمی کا جامع پروگرام ایوان میں پیش کریں گے۔