• KHI: Asr 4:11pm Maghrib 5:47pm
  • LHR: Asr 3:25pm Maghrib 5:03pm
  • ISB: Asr 3:25pm Maghrib 5:03pm
  • KHI: Asr 4:11pm Maghrib 5:47pm
  • LHR: Asr 3:25pm Maghrib 5:03pm
  • ISB: Asr 3:25pm Maghrib 5:03pm

عمران خان کا مبینہ آڈیو لیکس کے تدارک کیلئے چیف جسٹس سمیت تمام ججز کو خط

شائع February 20, 2023
عمران خان نے معاملے کے حوالے سے 8 سوالات بھی چیف جسٹس اور ججز کے سامنے رکھ دیے— فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ/اسکرین شاٹ
عمران خان نے معاملے کے حوالے سے 8 سوالات بھی چیف جسٹس اور ججز کے سامنے رکھ دیے— فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ/اسکرین شاٹ

سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے یکے بعد دیگرے منظرِ عام پر آنے والی مبینہ آڈیو/ ویڈیو لیکس کے تدارک کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال سمیت سپریم کورٹ کے تمام ججز کو تفصیلی خط لکھ دیا۔

پی ٹی آئی کے مرکزی میڈیا ڈپارٹمنٹ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق عمران خان نے معاملے پر گزشتہ برس اکتوبر میں دائر آئینی درخواست فوری سماعت کے لیے مقرر کرنے کی استدعا کردی۔

چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے لکھے گئے خط میں چیف جسٹس اور معزز ججز سے آئین کے تحت بنیادی حقوق خصوصاً آرٹیکل 14 کے تحت شہریوں کے پرائیویسی کے حق کے تحفظ کے لیے اقدامات کی بھی استدعا کی گئی ہے۔

خط میں چیئرمین پی ٹی آئی نے لکھا ہے کہ گزشتہ کئی ماہ سے مشکوک اور غیرمصدقہ آڈیوز/ ویڈیوز کے منظرِ عام پر آنے کا سلسلہ جاری ہے، منظرِعام پر آنے والی مبینہ آڈیوز/ ویڈیوز مختلف موجودہ و سابق سرکاری شخصیات اور عام افراد کے مابین گفتگو پر مبنی ہیں۔

عمران خان نے لکھا کہ منظرِعام پر آنے والی آڈیوز/ ویڈیوز غیر مصدقہ مواد پر مشتمل ہوتی ہیں، ان آڈیو/ ویڈیوز کو تراش خراش اور کاٹ چھانٹ کرکے ڈیپ فیک سمیت دیگر جعلی طریقوں سے تیار کیا جاتا ہے۔

سابق وزیر اعظم نے مزید لکھا کہ چند ماہ پہلے بعض ایسی آڈیوز منظرِ عام پر آئیں جن کے مواد سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ وزیراعظم کے دفتر/ ہاؤس سے متعلق تھیں۔

خط میں ان کا مزید کہنا تھا کہ ان آڈیوز سے تاثر ملتا ہے کہ وزیراعظم کے دفتر/ ہاؤس کی خفیہ نگرانی یا یہاں ہونے والی بات چیت کی خفیہ ریکارڈنگز ایک معمول تھا۔

عمران خان نے کہا کہ ایوانِ وزیراعظم بلاشبہ ریاست کا حساس ترین ایوان ہے جہاں قومی حساسیت کے حامل معاملات پر تبادلۂ خیال کیا جاتا ہے، ایوانِ وزیر اعظم کی سیکیورٹی پر نقب سے عوام کی سلامتی، تحفظ اور مفادات و حیات پر سنگین اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

خط میں عمران خان نے مزید بتایا کہ قوی شواہد موجود ہیں کہ ان غیرمصدقہ و جعلی آڈیوز/ ویڈیوز کے ذریعے تنقیدی آوازوں کو دبایا جانا مقصود ہے، مجھ سمیت کئی سابق سرکاری شخصیات اور عام افراد ان جعلی، غیر مصدقہ اور کانٹ چھانٹ سے تیار کردہ لیکس کا نشانہ بن چکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ دیگر بہت سے افراد کے ساتھ سینیٹر اعظم سواتی کے پرائیویسی کے بنیادی آئینی حق کو بری طرح پامال کیا گیا۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے خط میں لکھا کہ جناب عالی! پاکستان میں آئین کی تخلیق کے دوران متعدد حقوق کو دستور کا حصہ بنایا گیا، دستور کا آرٹیکل 4 ہر شخص کو قانون کا تحفظ فراہم کرتا اور قانون ہی کے تحت سلوک کا حق دیتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہی دستور ہر فرد کی عزت و ناموس اور چادر و چار دیواری کے تحفظ کی ضمانت فراہم کرتا ہے، مگر دستور کے تحت افراد کو میسر یہ حقوق ناقابلِ جواز ڈھٹائی اور صریح دیدہ دلیری سے پامال کیے جارہے ہیں۔

عمران خان نے لکھا کہ پرائیویسی سمیت دیگر بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے میں نے اکتوبر 2022 میں ان آڈیو لیکس پر آرٹیکل 184 (3) کے تحت معزز عدالت کے روبرو ایک آئینی درخواست دائر کی، بدقسمتی سے اب تک میری یہ درخواست سماعت کے لیے مقرر نہ کی جاسکی۔

ان کا کہنا تھا کہ میری درخواست کے بعد معاملات بہتری کے بجائے مزید ابتری کے شکار ہوچکے ہیں، آئین کی صریح خلاف ورزیوں پر کسی قسم کا محاسبہ نہ ہونے پر ان میں ملوث کردار مزید بے خوف ہو کر اس جعلی مواد کو فروغ دے رہے ہیں۔

عمران خان نے خط میں لکھا کہ بدقسمتی سے حال ہی میں سابق وزیر اعلیٰ اور سپریم کورٹ کے ایک معزز جج کے مابین مبینہ گفتگو خفیہ طور پر سماجی میڈیا پر جاری کی گئی، جس سے واضح ہوچکا کہ اب عوام معمول کے تحت اس خفیہ نگرانی و ریکارڈنگز کا نشانہ بن رہے ہیں، ان ریکارڈنگز کو اپنی مرضی سے کانٹ چھانٹ، توڑ مروڑ اور ردوبدل کرکے منظرِ عام پر لانے کا سلسلہ بلاروک جاری ہے۔

بیان کے مطابق عمران خان نے معاملے کے حوالے سے 8 اہم ترین سوالات بھی چیف جسٹس اور ججز کے سامنے رکھ دیے جو مندرجہ ذیل ہیں۔

1۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کون سا قانون عوام الناس کی اس وسیع پیمانے پر نگرانی و خفیہ ریکارڈنگز کی اجازت دیتا ہے۔

2۔ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ قانون اس نگرانی و ریکارڈنگز کا حق کسے دیتا ہے۔

3۔ یہ سوال بھی جواب طلب ہے کہ اس نگرانی و ریکارڈنگز کی حدود و قیود کیا ہیں۔

4۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ اس نگرانی و ریکارڈنگز کا سلسلہ کب تک جاری رہے گا۔

5۔ اس سوال کا جواب بھی لازم ہے کہ اس نگرانی و ریکارڈنگز سے حاصل کیے گئے مواد کی حفاظت کا کیا انتظام ہے۔

6۔ کیا محض کسی کی مرضی سے شہریوں کی باہم بات چیت خفیہ طور پر ریکارڈ اور توڑ مروڑ کر منظرِعام پر لانے کو گوارا کیا جاسکتا ہے؟

7۔ گزشتہ چند ماہ سے جاری قانون سے انحراف اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں کے اس سلسلے کو روکنے کے لیے کیا اقدامات اٹھائے گئے۔

8۔ آیا ہمارے وہ حساس ترین ایوان جہاں اہم ترین معاملات پر فیصلہ سازی کی جاتی ہے، محفوظ ہیں؟

خط میں عمران خان لکھا کہ اگر آئین کے تحت فراہم کردہ حقوق کچھ اہمیت رکھتے ہیں تو پاکستان کے عوام ان سوالات کے جوابات کے حقدار ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میری استدعا ہے کہ ان غیر مصدقہ و غیر مجاز آڈیو لیکس کے معاملے پر میری آئینی درخواست فوراً سماعت کے لیے مقرر کی جائے۔

عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ ملک کے اعلیٰ ترین ایوانِ عدل سے دستور کے تحت میسر حقوق کے تحفظ کی ضمانت کے حصول کی خواہش یقیناً تنہا میری ہی نہیں، قوم امید کرتی ہے جب دستور انہیں کچھ حقوق فراہم کرتا ہے تو بہرحال ان حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ چند روز قبل پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد اور سابق سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کے درمیان ہونے والی گفتگو کی آڈیو لیک منظر عام پر آئی تھی۔

خیال رہے کہ 16 فروری کو بھی تین آڈیو کلپس لیک ہوئے تھے جس میں سے ایک کلپ میں پرویز الہٰی کو مبینہ طور پر جج سے بات کرتے ہوئے سنا گیا تھا جن کے بینچ کے سامنے وہ چاہتے تھے کہ بدعنوانی کا مقدمہ سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔

کارٹون

کارٹون : 19 دسمبر 2024
کارٹون : 18 دسمبر 2024