الیکشن کمیشن کا انتخابات سے متعلق ایوان صدر کو مشاورت کا حصہ نہ بنانے کا حتمی فیصلہ
الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے آج ہونے والے اہم اجلاس کے بعد صوبوں کے انتخابات سے متعلق ایوان صدر کو مشاورتی عمل کا حصہ نہ بنانے کے اپنے حتمی فیصلے سے صدر مملکت کو آگاہ کردیا۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز بھی الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ایوان صدر کو مشاورتی عمل کا حصہ بنانے سے معذرت کرتے ہوئے صدر عارف علوی کے دوسرے خط کا جواب دے دیا تھا۔
خط میں کہا گیا تھا کہ افسوس سے کہہ رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن ایوان صدر کو اس مشاورتی عمل میں شامل نہیں کر سکتا، ایوان صدر کو صوبوں کے انتخابات کی مشاورت میں شامل کرنے سے متعلق حتمی فیصلہ الیکشن کمیشن کل صبح (20 فروری بروز پیر) طلب کیے گئے اجلاس میں کرے گا۔
صدر مملکت نے الیکشن کمیشن کو انتخابات پر مشاورت کے لیے دو خطوط لکھے تھے، دوسرے خط میں صدر نے چیف الیکشن کمشنر کو عام انتخابات کی تاریخ سے متعلق مشاورت کے سلسلے میں 20 فروری کو ایک ہنگامی اجلاس کے لیے مدعو کیا تھا۔
صدر مملکت کی جانب سے دی گئی دعوت پر غور کے لیے آج الیکشن کمیشن کا اجلاس ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ کمیشن ایوان صدر سے مشاورت نہیں کر سکتا۔
اس سلسلے میں سیکریٹری الیکشن کمیشن عمر حمید نے سیکریٹری صدر مملکت کو خط لکھ آگاہ کردیا، خط میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے اس معاملے پر آج اجلاس منعقد کیا، انتخابات کے انعقاد کے معاملات عدالتوں میں زیر التوا ہیں، اس لیے الیکشن کمیشن ایوان صدر سے مشاورت نہیں کرسکتا۔
صدر ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کو لکھے گئے پہلے خط میں کہا گیا تھا کہ الیکشن کمیشن ’الیکشن ایکٹ 2017‘ کے مطابق پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ کا فوری اعلان کرے۔
بعد ازاں چیف الیکشن کمشنر کو لکھے اپنے دوسرے خط میں صدر نے کمیشن کی جانب سے ’بے حسی اور بے عملی‘ پر ناراضی کا اظہار کیا تھا جس نے ان کے پہلے خط کا جواب نہیں دیا۔
ڈاکٹر عارف علوی نے کہا تھا کہ وہ بے چینی سے انتظار کر رہے تھے کہ الیکشن کمیشن آگے بڑھ کر اپنی آئینی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اس کے مطابق کام کرے گا، لیکن اس اہم معاملے پر کمیشن کے بے حس انداز سے وہ انتہائی مایوس ہوئے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے صدر مملکت کے پہلے خط کا جواب دیتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات کی تاریخوں کے اعلان میں ان کا کوئی کردار نہیں اور کمیشن اس حوالے سے اپنی آئینی ذمہ داری سے بخوبی واقف ہے۔
جوابی خط میں کہا گیا کہ ’آئین کے آرٹیکل 48 (5) کے مطابق جب صدر کی جانب سے قومی اسمبلی کو تحلیل کیا جاتا ہے تو وہ آرٹیکل 224 کی شق کے مطابق الیکشن کے لیے تاریخ اور نگران کابینہ کا تقرر کرے گا، اسی طرح جہاں ایک صوبے کا گورنر آرٹیکل 105 (3) (اے) کے تحت صوبائی اسمبلی کو تحلیل کرتا ہے تو وہ اسمبلی کے عام انتخابات کی تاریخ مقرر اور نگراں کابینہ کا تقرر کرے گا‘۔
خط میں صدر کی جانب سے استعمال کی جانے والی زبان پر بھی اعتراض کیا گیا، خط میں کہا گیا ہے کہ ’ہمیں یقین ہے کہ یہ غیرجانبدار ہے اور اس باوقار دفتر سے دیگر آئینی اداروں کی پدرانہ رہنمائی کی توقع رکھتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ ایسے دیگر آئینی اداروں سے مخاطب ہوتے ہوئے الفاظ کا بہتر انتخاب کیا جائے گا‘۔
کمیشن کا جواب صدر کی جانب سے اسے لکھے گئے پہلے خط کے 10 روز اور دوسرے خط کے ایک روز بعد سامنے آیا، دوسرے خط میں صدر نے چیف الیکشن کمشنر کو عام انتخابات کی تاریخ سے متعلق مشاورت کے سلسلے میں 20 فروری کو ایک ہنگامی اجلاس کے لیے مدعو کیا تھا۔
خیال رہے کہ 10 فروری کو لاہور ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کی درخواست منظور کرتے ہوئے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ کا فوری اعلان کرنے کا حکم دیا تھا۔
جسٹس جواد حسن نے مختصر فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد 90 روز میں انتخابات کرانے کا پابند ہے اور اسی لیے الیکشن کا شیڈول فوری طور پر جاری کیا جائے۔
فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ’الیکشن کمیشن کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ صوبے کے آئینی سربراہ گورنر پنجاب سے مشاورت کے بعد پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نوٹی فکیشن کے ساتھ فوری کرے اور یقینی بنائے کہ انتخابات آئین کی روح کے مطابق 90 روز میں ہوں‘۔
پنجاب میں انتخابات کی تاریخ پر مشاورت کے لیے گورنر اور الیکشن کمیشن حکام کے درمیان اجلاس ہوا تھا جو بے نتیجہ ختم ہوگیا تھا۔
گزشتہ روز گورنر پنجاب نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے میں کچھ شقوں کو چیلنج کرتے ہوئے عدالت میں درخواست دائر کی تھی جس میں استدعا کی گئی تھی کہ سنگل بینچ کے فیصلے میں گورنر سے مشاورت کے حوالے جو لکھا ہے اسے حذف کردیا جائے۔
درخواست گزار کے وکیل نے کہا تھا کہ گورنر آرٹیکل 105 کے تحت الیکشن کی تاریخ دینے کے پابند نہیں، اگر گورنر اسمبلی تحلیل کرے تو پھر گورنر تاریخ دینے کے پابند ہیں۔