بھارت حساس نوعیت کے ’کشمیر پیپرز کی ڈی کلاسیفکیشن‘ روک سکتا ہے، برطانوی اخبار
معروف برطانوی جریدے ’گارجین‘ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 1947 سے کشمیر کے حوالے سے ’حساس‘ دستاویزات جاری ہونے سے خارجہ تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہونے کے خدشات کے پیش نظر بھارت ان دستاویزات کے اجرا کو ’روک سکتا ہے‘۔
برطانوی جریدے کی جانب سے جائزہ لی گئی حکومتی داخلی دستاویزات کے مطابق ’بوچر پیپرز‘ کے نام سے جانے والے خطوط میں ان وجوہات سے متعلق فوجی اور سیاسی دلائل ہو سکتے ہیں جن کی وجہ سے بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے پاکستان کے ساتھ جنگ بندی کی ضرورت کو محسوس کیا اور بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دیا۔
14 فروری کو شائع ہونے والی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بوچر پیپرز میں اس بات چیت کا حوالہ دیا گیا ہے جو بھارتی فوج کے سیکنڈ کمانڈر انچیف رائے بوچر اور جواہر لال نہرو سمیت سرکاری افسران کے درمیان ہوئی تھی۔
اس رپورٹ میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ کس طرح مقبوضہ جموں و کشمیر کے علاقے کو خارجہ امور اور دفاع کے علاوہ علیحدہ آئین، الگ جھنڈے سمیت تمام معاملات پر خود مختاری دی گئی تھی جب کہ اس اقدام کو کئی دہائیوں تک کشمیریوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک اہم اقدام کے طور پر دیکھا گیا۔
تاہم 2019 میں ہندو قوم پرست وزیر اعظم نریندر مودی کی زیر قیادت دہلی کی حکومت نے ریاست کی آئینی خودمختاری کو باضابطہ طور پر منسوخ کرتے ہوئے اسے مکمل طور پر بھارت میں ضم کرنے کی متنازع کوشش کی، اس فیصلے سے علاقے پر حکومت کی گرفت مضبوط ہوگئی اور 3 دہائیوں سے جاری مسلح جدوجہد میں شدید غم و غصے کی نئی لہر کو جنم دیا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ سماجی کارکنوں نے آرٹیکل 370 کے استدلال پر روشنی ڈالنے کی کوشش میں ان کاغذات کو پبلک کرنے کے لیے گزشتہ برسوں میں کئی کوششیں کی ہیں جن کی بنیاد پر مقبوضہ کشمیر کو خصوصی درجہ دیا گیا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غیر ملکی میڈیا آؤٹ لیٹ کی جانب سے دیکھی گئی دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ ان کاغذات کو ابھی ظاہر نہیں کیا جانا چاہیے جب کہ یہ دستاویزات کشمیر میں فوجی آپریشنل معاملات اور کشمیر کے حساس سیاسی معاملات پر سینئر حکومتی رہنماؤں کے درمیان خط و کتابت پر مشتمل ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ کاغذات بھارت کی وزارت ثقافت کے ماتحت خودمختار ادارے میں رکھے گئے ہیں جسے نہرو میموریل میوزیم اینڈ لائبریری کہا جاتا ہے، کاغذات سے پتا چلتا ہے کہ جواہر لال نہرو کشمیر میں فوجی ڈیولپمنٹ سے آگاہ اور مطلع تھے جس میں پاکستان کی کوششوں سے صورت حال کو مزید خراب کرنے کے لیے بیرونی فوجی مدد کا استعمال کرنا بھی شامل تھا۔
رپورٹ میں معاملے کی معلومات رکھنے والے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ رائے بوچر نے 13 ماہ کی فوجی تعیناتی کی وجہ سے بھارتی فوجیوں کو درپیش تھکاوٹ کے پیش نظر بگڑتی صورت حال کو حل کرنے کے لیے سیاسی نقطہ نظر اپنانے کا مشورہ دیا۔
اس میں کہا گیا ہے کہ یہ مشورہ جواہر لال نہرو کی جانب سے کشمیر کو خصوصی درجہ دینے کے فیصلے کا محرک بنا ہوگا۔
جواہر لال نہرو نے 1952 میں بھارتی پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ میں اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ صرف کشمیر کے لوگ ہی کر سکتے ہیں، ہم زبردستی خود کو کشمیریوں پر مسلط نہیں کریں گے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بوچر پیپرز کو بھارتی وزارت خارجہ نے 1970 میں اس نوٹ کے ساتھ نہرو میوزیم اینڈ لائبریری کے حوالے کیا تھا کہ انہیں خفیہ اور کلاسیفائڈ رکھا جانا چاہیے۔
وزارت خارجہ کی دستاویز کے مطابق کاغذات اس وقت سے اب تک لائبریری کی محفوظ کلیکشن میں موجود ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بھارتی سماجی کارکن وینکٹیش نائک نے کاغذات کو پبلک کرنے کے لیے متعدد اپیلیں دائر کیں، ان کی اپیلوں کو مسترد کر دیا گیا لیکن 2021 میں بھارتی انفارمیشن کمشنر نے فیصلہ دیا کہ دستاویزات کو ڈی کلاسیفائی کرنا قومی مفاد میں ہے لیکن وہ اہم دستاویزات کے افشا کا حکم دینے میں ناکام رہے۔
12 اکتوبر 2022 کو لکھے گئے ایک خط میں جس کا ’گارجین‘ نے بھی جائزہ لیا میوزیم اور لائبریری کے سربراہ نے بھارتی سیکریٹری خارجہ کو لکھا کہ یہ مقالے علمی تحقیق کے لیے بہت اہم ہیں اور ان کو ڈی کلاسیفائی کرنے کی درخواست کی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت عام طور پر 25 سال کے بعد آرکائیو دستاویزات کی ڈی کلاسیفکیشن کی اجازت دیتا ہے، ذرائع کے مطابق بھارتی حکومت نے بوچر پیپرز کے معاملے پر ابھی کوئی حتمی فیصلہ کرنا ہے۔
بھارتی وزارت خارجہ نے دستاویز میں دلیل دی کہ کاغذات کے افشا کو فی الحال روک دیا جانا چاہیے اور تجویز دی کہ ’رائے بوچر پیپرز‘ کی حساسیت اور ان کے افشا کیے جانے کے ممکنہ مضمرات کا مزید جائزہ لیا جانا چاہیے۔