کراچی پولیس چیف کے دفتر پر حملہ، سیکیورٹی فورسز کا آپریشن مکمل، 3دہشت گرد ہلاک
صوبہ سندھ کے دارالحکومت میں شاہراہ فیصل پر واقع کراچی پولیس چیف کے دفتر پر دہشت گردوں کا حملہ، تقریباً ساڑھے تین گھنٹے سے زائد مقابلے کے بعد عمارت کو دہشت گردوں سے کلیئر کرا لیا گیا، حملے میں تین دہشت گرد مارے گئے۔
ترجمان حکومت سندھ مرتضیٰ وہاب نے بتایا کہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کامیابی سے مکمل کر لیا گیا ہے اور عمارت پر حملہ کرنے والے تینوں دہشت گردوں کو ہلاک کردیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ شاہراہ فیصل کو سیکیورٹی کی وجہ سے بند کیا تھا تاکہ آپریشن کو بلا کسی تعطل جاری رکھا جا سکے اور لوگوں کو بھی تکلیف نہ ہو۔
پولیس آفس اور اطراف کو دہشت گردوں سے پاک کردیا گیا ہے، ترجمان
پولیس ترجمان نے بیان میں کہا کہ کراچی پولیس آفس پر حملہ کرنے والے تینوں حملہ آوروں کو پولیس کمانڈوز کی کارروائی میں ہلاک کردیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ پولیس کی کارروائی کے دوران ایک دہشت گرد نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا جبکہ دیگر دو پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہوگئے۔
ترجمان نے کہا کہ یہ ایک اہم کارروائی تھی، جس کو کوئیک رسپانس فورس (کیو آر ایف) کے ڈی آئی جیز، جنوبی اور شرقی اور دیگر افسران نے بہادری سے مکمل کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس آپریشن میں رینجرز اور فوج کے اہلکاروں نے بھی حصہ لیا جبکہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ بھی آئی جی کے دفترپہنچے اور واقعے کے حوالے سے معلومات لیتے رہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ نے آئی جی آفس میں پولیس کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر پر تمام آپریشن کی نگرانی کی۔
پولیس ترجمان کا کہنا تھا کہ ایک ہیڈ کانسٹیبل اور ایک شہری شہید ہوا اور 15 افراد زخمی ہوئے، جن میں پولیس اور رینجرز اہلکار بھی شامل تھے۔
بیان میں مزید کہا کہ اللہ کے فضل سے کراچی پولیس آفس اور اطراف کو دہشت گردوں سے مکمل طور پر پاک کردیا گیا ہے۔
دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی سربراہی کرنے والے پولیس افسران میں شامل ڈی آئی جی ایسٹ زون مقدس حیدر نے بتایا کہ مجموعی طور پر 3 حملہ آور تھے، جو انڈس کرولا کار میں تین بیگز میں کھانے پینے کی چیزوں کے ساتھ آئے تھے۔
ڈی آئی جی مقدس حیدر نے کہا کہ ایک حملہ آور نے کراچی پولیس کی عمارت کے چوتھے فلور پر خود کو اڑا لیا جبکہ دیگر دو کو عمارت کی چھت پر مار دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ مسلح افراد شلوار قمیض میں ملبوس تھے۔
اس سے قبل کراچی پولیس چیف ایڈیشنل آئی جی سندھ جاویدعالم اوڈھو نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے حملے کی تصدیق کی تھی اور بتایا کہ میرے دفتر پر حملہ ہوا ہے اور فائرنگ ابھی جاری ہے۔
وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے کہا تھا کہ پانچ منزلہ عمارت کی تین منزلیں کلیئر کرا لی گئی ہیں البتہ حملے میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔
انہوں نے جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حملہ شام 7 بجکر 10 منٹ پر کیا گیا جس میں دو دہشت گردوں کے ہلاک ہونے کی اطلاع موصول ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت نے فوج سے مدد طلب کی ہے، ہم وفاقی حکومت کے ساتھ تعاون کررہے ہیں اور ہماری اولین ترجیح صورتحال کو کنٹرول میں لانا ہے۔
ترجمان سندھ رینجرز نے بیان میں کہا کہ کراچی پولیس چیف کے دفتر پر حملے کی اطلاع پر رینجرز کوئیک رسپانس فورس (کیو آر ایف) نے جائے وقوع پر پہنچ کر علاقے کا گھیراؤ کر لیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ رینجرز نے پولیس کے ہمراہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع کردیا ہے اور ابتدائی طور پر 8 سے 10 مسلح دہشت گردوں کی جانب سے حملہ اور ان کی وہاں موجود گی کی اطلاع پر کارروائی عمل میں لائی گئی۔
پولیس سرجن ڈاکٹر سمیہ سید نے ڈان کو بتایا کہ جناح ہسپتال میں دو لاشیں اور تین زخمیوں کو لایا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ زخمیوں میں پولیس اہلکار لطیف، رینجرز اہلکار عبدالرحیم اور ایک ایدھی رضاکار بھی شامل ہے۔
ایدھی فاؤنڈیشن کے ترجمان کے مطابق جاں بحق ہونے والوں میں سے ایک کی شناخت 45سالہ پولیس کانسٹیبل غلام عباس کے نام سے ہوئی ہے جبکہ سادہ کپڑوں میں ملبوس دوسری لاش کی شناخت نہیں ہو سکی۔
ادھر ایس ایچ او خالد حسین نے بتایا کہ نامعلوم حملہ آوروں نے کراچی پولیس کے دفتر کے قریب صدر پولیس اسٹیشن پر حملہ کیا ہے اور ہر طرف سے فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے۔
ڈان نیوز کے مطابق ڈی آئی جنوبی عرفان بلوچ کے مطابق دہشت گرد عقبی راستے سے داخل ہوئے اور ان کے خلاف کارروائی کے لیے پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری پہنچ گئی۔
کراچی پولیس کے مطابق حملے کے پیش نظر آواری ٹاور سے نرسری تک شاہراہ فیصل کو دونوں جانب سے ٹریفک کے لیے بند کردیا گیا۔
وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن نے کہا کہ حکومت کی رٹ کو چیلنج کرنے والے دہشت گردوں کو عبرت ناک شکست دی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس کی نفری اندر اور باہر موجود ہے لیکن یہاں سے کوئی باہر نہیں نکل سکتا، یہ حملہ دہشت گردوں کو بہت مہنگا ثابت ہوگا۔
تحریک طالبان پاکستان نے حملے کی ذمے داری قبول کر لی
کالعدم تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) نے ترجمان محمد خراسانی کی جانب سے کیے گئے میسج میں کراچی میں پولیس چیف کے دفتر پر حملے کی ذمے داری قبول کر لی ہے۔
اس سے قبل 2011 میں پی این ایس مہران پر بھی کالعدم ٹی ٹی پی نے حملہ کیا تھا اور اس وقت 17 گھنٹے کے آپریشن کے بعد پی این ایس مہران کو دہشت گردوں سے کلیئر کرایا گیا تھا۔
اس حملے میں 10 سیکیورٹی اہلکار شہید ہو گئے تھے اور دہشت گردوں نے امریکا کے تیارہ کردہ دو طیارے تباہ کردیے تھے۔
مذکورہ واقعے کے تین سال بعد دہشت گردوں نے 8 جون 2014 کو کراچی ایئرپورٹ پر حملہ کیا تھا جس میں 24 افراد شہید ہو گئے تھے اور املاک کو بھی بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا تھا اور اسی حملے کے بعد دہشت گردوں کے خلاف 15 جون کو آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیا گیا تھا۔
حملے کے وقت کراچی پولیس کے سربراہ عمارت میں نہیں تھے، وزیر داخلہ
دوسری جانب وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ حملے کے وقت کراچی پولیس کے سربراہ عمارت میں موجود نہیں تھے اور حملہ کرنے والے دہشت گردوں کی تعداد چھ سے سات بتائی جا رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ چھ سے سات دہشت گرد گاڑی میں آئے اور دستی بم پھینک کر عمارت میں داخل ہوئے اور وہ اس وقت کراچی پولیس آفس کی تیسری منزل پر موجود ہیں۔
وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ کراچی پولیس کے سربراہ نے بتایا کہ پولیس اہلکار عمارت کی تیسری منزل تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں اور وفاق اس سلسلے میں سندھ پولیس کو ہر قسم کی معاونت فراہم کرے گا۔
گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے ڈان نیوز سے گفتگو کے دوران حملے کو دہشت گردی کے بجائے بزدلانہ کارروائی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ کارروائی آدھا گھنٹہ پہلے بھی ختم کی جا سکتی تھی لیکن کوشش ہے کہ ان بزدلوں کو زندہ پکڑا جائے تاکہ ان کے سہولت کاروں اور ہینڈلرز کو بے نقاب کیا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی میں پاکستان سپر لیگ کے دوران کی گئی اس بزدلانہ کارروائی کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے لیکن ہماری رینجرز اور پولیس نے صورتحال کو کنٹرول میں کر لیا ہے اور یہ آپریشن جلد ہی کچھ منٹوں میں ختم کر لیا جائے گا۔
وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا نوٹس
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے ایڈیشنل آئی جیز کے دفتر پر مبنیہ حملے کا نوٹس لیتے ہوئے مختلف ڈی آئی جیز کو اپنے زون سے ضروری پولیس فورس بھیجنے کی ہدایت کی۔
انہوں نے ہدایت کی کہ فوری طور پر ایڈیشنل آئی جی کے دفتر پر حملے کے ملزمان کو گرفتار کیا جائے اور مجھے تھوڑی دیر کے بعد متعلقہ افسر واقعے کی رپورٹ دے۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ کراچی پولیس چیف کے دفتر پر حملہ کسی صورت قابل قبول نہیں۔
وزیر اعظم کا فورسز کو خراج تحسین، بلاول بھٹو کا اظہار مذمت
وزیراعظم شہباز شریف نے کراچی پولیس آفس پر دہشت گرد حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی پر پولیس اور سیکیورٹی فورسز کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے شاباش دی ہے۔
جمعہ کو وزیر اعظم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری بیان کے مطابق وزیراعظم نے دہشت گرد حملے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ سے واقعے کی رپورٹ طلب کرلی ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ خان کو دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کلین اپ میں وفاقی حکومت کی جانب سے مکمل تعاون فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کا ناسور ختم کرنے کے لیے پوری ریاستی قوت اور اشتراک عمل کو بروئے کار لانا ہو گا۔
وزیراعظم نے کہا کہ دہشت گردوں نے ایک بار پھر سے کراچی کو نشانہ بنایا ہے ، اس طر ح کی بزدلانہ کارروائیوں سے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ارادے اور عزم کو توڑا نہیں جا سکتا اور پوری قوم پولیس اور سیکیورٹی اداروں کے ساتھ کھڑی ہے۔
وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ سندھ پولیس نے اس سے قبل بھی دہشت گردی کا بہادری سے سامنا کرتے ہوئے اسے کچلا ہے اور ہمیں پورا بھروسہ ہے کہ وہ اس مرتبہ بھی ایسا کرنے میں کامیاب رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح کے حملے ہمارے عزم کو متزلزل نہیں کر سکتے۔