الیکشن کمیشن کی صوبائی انتخابات سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف درخواست
الیکشن کمیشن نے پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے عام انتخابات کی تاریخ سے متعلق لاہور ہائی کورت کے فیصلے کے خلاف انٹرکورٹ اپیل دائر کر دی۔
لاہور ہائی کورٹ میں دائر انٹرا کورٹ اپیل میں الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور گورنر پنجاب کو فریق بنایا ہے۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ سنگل بینچ نے حقائق کا درست جائزہ نہیں لیا، قانون کے مطابق الیکشن کی تاریخ دینا الیکشن کمیشن کا اختیار نہیں ہے۔
الیکشن کمیشن نے انٹراکورٹ اپیل میں کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کو انتخابات کی کی تاریخ کا کہنا آئین اور الیکشن ایکٹ کے خلاف ہے۔
کمیشن نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ الیکشن کی تاریخ سے متعلق سنگل بینچ کا فیصلہ کالعدم قرار دے اور درخواست کے فیصلے تک سنگل بینچ کا فیصلہ معطل بھی کردیا جائے۔
خیال رہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لیے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی درخواست منظور کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو تاریخ کا فوری اعلان کرنے کا حکم دیا تھا۔
جسٹس جواد حسن نے مختصر فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد 90 روز میں انتخابات کرانے کا پابند ہے اور اسی لیے الیکشن کا شیڈول فوری طور پر جاری کردیا جائے۔
فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ’الیکشن کمیشن کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ صوبے کے آئینی سربراہ گورنر پنجاب سے مشاورت کے بعد پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نوٹی فکیشن کے ساتھ فوری کرے اور یقینی بنائے کہ انتخابات آئین کی روح کے مطابق 90 روز میں ہوں‘۔
بعد ازاں الیکشن کمیشن نے گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن سے صوبائی اسمبلی کے عام انتخابات کے لیے مشاورت کی تھی تاہم اجلاس بے نتیجہ ختم ہوگیا تھا۔
اجلاس کے بعد سیکریٹری الیکشن کمیشن نے بتایا تھا کہ پنجاب میں انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے فی الحال کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔
دوسری جانب گورنر پنجاب نے کہا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے میں متعدد امور اور گورنر کے مشاورتی کردار کے چند پہلو وضاحت اور تشریح طلب ہیں جس کے لیے قانونی اور آئینی ماہرین سے مشاورت کے بعد عدالت سے رجوع کیا جائے گا۔
ادھر گزشتہ روز جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی پر مشتمل سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے پنجاب میں مقررہ مدت میں انتخابات کی تاریخ کے اعلان میں تاخیر پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ازخود نوٹس کی کارروائی کے لیے معاملہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو بھجوا دیا۔
سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے کارروائی کے بعد جاری کردہ 6 صفحات پر مشتمل حکم نامے میں رجسٹرار آفس کو معاملہ چیف جسٹس کے سامنے رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان مناسب سمجھیں تو آرٹیکل 184 (3) کے تحت دائرہ اختیار استعمال کرتے ہوئے اس معاملے کو اٹھانے کے لیے ایک بینچ تشکیل دے سکتے ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی پر مشتمل بینچ نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ عدالتی کارروائیوں کے دوران ہمارے نوٹس میں لایا گیا معاملہ آئین کے پارٹ 2 کے باب 1 کے مطابق بنیادی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے عوامی اہمیت کا ایک سنجیدہ سوال اٹھاتا ہے۔
اس سے قبل چیف الیکشن کمشنر کو سپریم کورٹ میں طلب کیا گیا تھا جہاں انہوں نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اختیارات کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
یاد رہے کہ 14 جنوری کو وزیر اعلیٰ کی جانب سے سمری پر دستخط کرنے کے 48 گھنٹے مکمل ہونے پرپنجاب کی صوبائی اسمبلی از خود تحلیل ہوگئی تھی۔
اس کے بعد گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرنے سے گریز کیا تھا۔
پی ٹی آئی نے 27 جنوری کو پنجاب میں الیکشن کی تاریخ دینے کے لیے پاکستان تحریک انصاف نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔