• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

بینکنگ کورٹ کو عمران خان کی درخواست ضمانت پر فیصلے سے روک دیا گیا

شائع February 15, 2023
جج بنکنگ کورٹ نے کہا کہ عمران خان کی آجکی حاضری سے استثنیٰ کی خارج کی جاتی ہے—فائل فوٹو : ڈان نیوز
جج بنکنگ کورٹ نے کہا کہ عمران خان کی آجکی حاضری سے استثنیٰ کی خارج کی جاتی ہے—فائل فوٹو : ڈان نیوز

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں بینکنگ کورٹ اسلام آباد کو 22فروری تک سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی درخواست ضمانت پر فیصلے سے روک دیا۔

قبل ازیں بینکنگ کورٹ نے عمران خان کی آج کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست مسترد کرتے ہوئے سابق وزیراعظم کو آج عدالتی اوقات یعنی ساڑھے 3 بجے تک پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں ممنوعہ فنڈنگ کیس میں بینکنگ کورٹ کی جانب سے ویڈیو لنک پر حاضری کی عمران خان کی درخواست مسترد کرنے کے خلاف اپیل پر سماعت ہوئی، جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کیس کی سماعت کی۔

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی جانب سے بیرسٹر سلمان صفدر اسلام آباد ہائی کورٹ کے روبرو پیش ہوئے۔

عمران خان کے وکیل نے کہا کہ رجسٹرار آفس نے بیان حلفی اور بائیو میٹرک سے متعلق اعتراض لگایا ہے، درخواست گزار طبی ناسازی کی وجہ سے عدالت پیش نہیں ہوسکے، بینکنگ کورٹ میں ضمانت کی درخواست دائر کی گئی تھی، عمران خان 70 سال کے ہیں، زخم بھرنے میں وقت لگتا ہے۔

وکیل عمران خان نے مؤقف اپنایا کہ ڈاکٹرز نے ابھی مزید 3 ہفتوں تک آرام کرنے کی ہدایت کی ہے، بیرسٹر سلمان صفدر نے عمران خان کے حوالے سے میڈیکل رپورٹ عدالت میں جمع کرائی، اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کی درخواست پر اعتراض دور کرنے کی ہدایت کی۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ بیان حلفی لاہور ہائی کورٹ سے تصدیق کریں، وکیل عمران خان نے کہا کہ 70 سال یا اس سے اوپر کے لوگوں کے لیے بائیو میٹرک ضروری نہیں۔

عدالت نے کہا کہ لوگوں کی آسانی کے لیے ہی لاہور یا دیگر عدالتوں کے بیان حلفی جمع کرنے کا طریقہ کار بنایا گیا ہے۔

وکیل عمران خان نےکہا کہ ہم انکوائری میں شامل ہونا چاہتے ہیں، عدالت نے استفسار کیا کہ تو آپ ابھی تک شامل تفتیش کیوں نہیں ہوئے؟ ہم نے ایف آئی اے کو اسکائپ کے ذریعے شامل تفتیش ہونے کا کہا مگر ہماری بات نہیں مانی گئی، 22 اکتوبر 2022 سے عمران خان ضمانت پر ہے، کیا آپ چاہتے ہیں کہ ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست پر فیصلہ ابھی نہ کریں۔

وکیل عمران خان نے کہا کہ اس کیس میں ہم پہلے عدالت پیش ہوتے رہے مگر بیچ میں قاتلانہ حملہ ہوا، شاہ زیب قتل کیس کا سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے جو پڑھنا چاہوں گا، ہم عدالت پیش ہونا چاہتے ہیں شامل تفتیش ہونا چاہتے ہیں، میں نے شوکت خانم ہسپتال کے میڈیکل شواہد درخواست کے ساتھ لگائی ہیں، عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے عمران خان کی میڈیکل رپورٹ عدالت کو پڑھ کر سنایا۔

وکیل عمران خان نے کہا کہ ڈاکٹرز نے عمران خان کو سفر سے منع کیا ہے، ابھی وہ سہارے کے ذریعے چہل قدمی کرتے ہیں، ڈاکٹر نے کہا سفر کے دوران زخم پر بوجھ گیا تو تین مہینے پیچھے چلا جائے گا، ہم بیان حلفی جمع کرتے ہیں کہ ہم 28 فروری کو عدالت پیش ہوں گے۔

عدالت نے عمران خان کے وکیل سے استفسار کیا کہ کوئی سرجری ہوئی ہے؟ وکیل عمران خان نے کہا کہ ہمارے پاس ایکسرے موجود ہیں جو عدالت کو دکھاتے ہیں، دستاویزات بھی ہیں کہ سرجری ہوئی۔

عدالت نے کہا کہ ہم ماہر نہیں کہ ایکسرے دیکھ لیں، عدالت نے رجسٹرار آفس کو عمران خان کی اپیل پر نمبر لگا کر سماعت کے لیے آج ہی مقرر کرنے کی ہدایت کردی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں عمران خان کی بینکنگ کورٹ کے فیصلے کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران عدالت عالیہ نے بینکنگ کورٹ کو 22فروری تک عمران خان کی درخواست ضمانت پر فیصلے سے روک دیا۔

دوران سماعت وکیل عمران خان نے کہا کہ 17 اکتوبر کو عبوری ضمانت حاصل کی گئی، وزیر آباد کا واقعہ 3 نومبر کو ہوا ، واقعہ کے بعد چھ بار اور واقعے سے پہلے دو بار استثنیٰ کی درخواست کی گئی۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے مسکراتے ہوئے استفسار کیا کہ ستر سال کو آپ ایڈوانس ایج کہتے ہیں آپ ؟ بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ جی سر اس عمر میں زخم بھرنے میں وقت لگتا ہے۔

بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ عمران خان کبھی عدالتوں کے روبرو پیش ہونے سے نہیں ہچکچائے، اب میڈیکل گراؤنڈز سب کے سامنے ہیں اور حقائق پر مبنی ہیں۔

اس موقع پر عدالت عالیہ نے بینکنگ کورٹ کو 22فروری تک عمران خان کی درخواست ضمانت پر فیصلے سے روکتے ہوئے آئندہ سماعت پر عمران خان کی تازہ میڈیکل رپورٹ بھی طلب کرلی۔

عمران خان کی ضمانت پر فیصلہ موخر ، سماعت 18 فروری تک ملتوی

قبل ازیں فارن ایکسچینج ایکٹ کے تحت درج مقدمے میں بنکنگ کورٹ میں عمران خان کی عبوری ضمانت کے کیس کی سماعت ہوئی، جج بنکنگ کورٹ رخشندہ شاہین نے سماعت کی۔

سماعت کے آغاز پر جج رخشندہ شاہین نے کہا کہ میرے عدالتی عملے نے سب کو بتادیا کہ غیر ضروری افراد باہر نکل جائیں، میڈیا کے لوگ بھی باہر چلے جائیں۔

اس دوران عمران خان کی آج کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی گئی، وکیل نے مؤقف اپنایا کہ معاملہ ہائی کورٹ میں بھی زیر سماعت ہے اس لیے وقفہ کیا جائے۔

عمران خان کے وکیل نے کہا کہ جو بھی بات کہوں گا اس کے میڈیکل رپورٹ کی صورت میں ثبوت موجود ہیں، جج بینکنگ کورٹ نے کہا کہ آپ نے میرا گزشتہ سماعت کا آرڈر ہائی کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔

وکیل عمران خان نے کہا کہ اگر آپ میری درخواست سن کر ریلیف دے دیں تو ہائی کورٹ نہیں جاؤں گا، جج بینکنگ کورٹ نے کہا کہ آپ نے میرا آرڈر چیلنج کر رکھا ہے اس لیے ضرور جائیں۔

عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل دیے کہ میں مختصر وقت میں عدالت کے سامنے گزارشات رکھوں گا، میں ہائی کورٹ میں آپ کے حکم کے خلاف قدم بھی نہیں رکھنا چاہتا، میں چاہتا ہوں آپ اوپن مائنڈ کے ساتھ ہمیں یہاں ہی سن لیں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا فیصلہ موجود ہے، اسپیشل پراسیکیوٹر نہیں آسکتا۔

سلمان صفدر نے کہا کہ میں نے اس کے باجود رضوان عباسی پر اعتراض نہیں اٹھایا، میں آج بھی ان پر اعتراض نہیں اٹھاؤں گا، پہلی بار بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کے سامنے درخواست گزار کون ہے، عمران خان 70 سال سے زائد عمر کے آدمی ہیں، وہ ورزش کی وجہ سے سپر فٹ ضرور ہیں مگر عمر ستر سال سے زائد ہے۔

انہوں نے استدلال کیا کہ کسی نوجوان کو بھی گولی لگے تو تین مہینے ریکوری میں لگتے ہیں، عمران خان کو تو عمر رسیدہ ہونے پر بائیو میٹرک سے بھی استثنیٰ ہے، اس دوران وکیل نے عمران خان کی ذاتی پیشی کے لیے تین ہفتوں کی مہلت طلب کی۔

عمران خان کے وکیل نے عمران خان کے ایکسرے بھی پیش کردیے، سلمان صفدر نے کہا کہ ہم سب ڈاکٹر بنتے ہیں تو یہ ایکسرے بھی دیکھ لیں، ہم صرف تین ہفتے مانگتے ہیں کہ وہ سپورٹ کے بغیر کھڑے ہوسکیں، اگر ہماری استدعا نہیں سننی تو لکھنا ہوگا ہمارا میڈیکل درست نہیں، یہ بھی لکھنا ہوگا کہ عمران خان کو گولیاں نہیں لگیں۔

سلمان صفدر نے کہا کہ عمران خان اسلام آباد میں بھی نہیں ہیں۔

عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے عبوری ضمانت میں توسیع پر دلائل مکمل کیے تو شریک ملزم طارق شفیع کے وکیل میاں علی اشفاق نے دلائل دیتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ الزام لگایا گیا کہ ایک غلط بیان حلفی پی ٹی آئی نے دیا، پی ٹی آئی ایک پارٹی کا نام ہے کسی فرد کا نہیں، قانون کہتا ہے کوئی کلرک، افسر یا بینک حکام ایسا کریں تو قانون لاگو ہوگا۔

میاں علی اشفاق نے استدلال کیا کہ طارق شفیع نہ پارٹی ہیں، نہ کلرک نہ افسر وہ ایک پرائیویٹ شہری ہیں، ممنوعہ فنڈنگ پر کریمنل کیس بنتا ہی نہیں تھا، میں آپ کے سامنے اس ایف آئی آر کا پوسٹ مارٹم کروں گا، آپ اس ایف آئی آر کو قبول کر بھی لیں آخر میں جرم نہیں نکلنا، ایک پراسیکیوشن نیک نیت ہوتی ہے ایک بدنیتی پر مبنی پراسیکیوشن ہوتی ہے، پی ٹی آئی کو مختلف شہروں میں بینک اکاؤنٹس میں فندز وصول ہوئے۔

میاں علی اشفاق نے کہا کہ مختلف شہروں میں آئے فنڈز پر الگ الگ ایف آئی آرز ہو گئیں، یہ مقدمات تو صغراں بی بی کیس کی بھی خلاف ورزی ہے، کہا گیا عارف نقوی نے غیر قانونی طور پر حاصل رقم منتقل کی، یہ ایک کھوکھلا اور بھونڈا الزام ہے۔

انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ کیا کوئی ڈاکومنٹ ہے یا کوئی بیان ریکارڈ ہوا یہ غیر قانونی فنڈز ہیں؟ مسجد میں صندوق رکھا ہوتا ہے مختلف لوگ چندہ ڈال جاتے ہیں، مسجد کا کام نہیں ہے سب فنڈ دینے والوں کو جاکر پوچھے کمائی کہاں سے آئی، ایسے ہی کوئی این جی او بھی جاکر کسی سے نہیں پوچھتی کمایا کہاں سے ہے۔

میاں علی اشفاق نے دلائل دیے کہ عارف نقوی نے کوئی جرم بھی کیا ہو تو چندہ وصول کرنے والی پارٹی کیسے مجرم ہوئی؟ الزام ہے کہ جرم عارف نقوی نے بیرون ملک کیا ہے، عارف نقوی کو وہاں سزا بھی ہو چکی تو ہم یہاں کیا کر رہے ہیں؟ ایف آئی اے یہاں یہ سارے حقائق چھپا رہی ہے، کیس 2013 کا ہے اس وقت بھی یہی حکومت تھی، اُس وقت سے آٹھ سال تک یہ لوگ سوئے رہے۔

انہوں نے مؤقف اپنایا کہ اب ایسا کیا ہوگیا کہ سارے ادارے جاگ گئے، جاگیں ضرور جاگیں لیکن کسی اچھی جگہ پر جاگیں، طارق شفیع تو سیاسی شخص بھی نہیں ہیں، ایک ستر سال سال سے زائد عمر شخص پر یہ کیس بنا دیا گیا ہے، عارف نقوی کو پنالٹی باہر لگ چکی ایف آئی اے کے پاس اس کاریکارڈ ہی نہیں، کیا یہ کہہ رہے ہیں کسی دوسرے ملک کے جرم پر یہاں دوبارہ سزا دیں گے؟ 30 کروڑ ڈالر اُن کی کمپنی کو وہاں جرمانہ ہو چکا یہ ایف آئی آر خود کہہ رہی ہے۔

وکیل نے استدلال کیا کہ عارف نقوی نے وہاں کیا ہوگا ڈیفالٹ اس میں یہ لوگ کدھر سے آئے؟ عمران خان، طارق شفیع، عامر کیانی ان لوگوں کا اس میں کیا جرم ہے؟ الیکشن کمیشن کی ایک الگ کارروائی ہوسکتی ہے کہ پارٹی کیسے ریگولیٹ ہوگی، اس عدالت کے سامنے اسے الگ جرم کیسے بنا کر پیش کیا جاسکتا ہے۔

اس موقع پر جج رخشندہ شاہین نے ریمارکس دیے کہ آپ غیر متعلقہ دلائل دے رہے ہیں، یہ صرف ضمانت کا کیس ہے، میں نے کوئی آبزرویشن نہیں دینی یہ محض ضمانت کا ہی کیس رہے گا، وکیل طارق شفیع نے کہا کہ انہی عدالتوں سے ضمانت سے آگے تک بھی بات گئی، فیصلے پڑھ کر سناؤں گا۔

جج رخشندہ شاہین نے کہا کہ فیصلوں کی کاپی دے دیجئے گا، پڑھنے کی ضرورت نہیں، وکیل علی اشفاق نے کہا کہ میں تھوڑا حصہ تو عدالت کے سامنے پڑھوں گا کہ کیا فیصلے ہوئے۔

جج رخشندہ شاہین نے کہا کہ اس عدالت میں ایسا نہیں ہوگا، یہ ضمانت کا ہی کیس رہے گا، اپنے دلائل جلدی مکمل کریں، باقی لوگوں کو بھی سننا ہے، آپ کے پیچھے لمبی لائن ہے، ان سب کے وکلا کے بھی دلائل سننے ہیں۔

طارق شفیع کے وکیل نے کہا کہ عدالت اُن کو کل بھی سن سکتی ہے، سب کو مناسب موقع دیا جانا چاہیے، اس کے ساتھ ہی عمران خان اور شریک ملزمان کے وکلا نے دلائل مکمل کرلیے جس کے بعد اسپیشل پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ یہاں کہا گیا مسجد میں کوئی چندہ دے جائے تو کوئی نہیں پوچھتا۔

اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ ایسا چندہ پاکستان میں ہی ہوتا ہے یو اے ای میں نہیں، ملزمان کے وکلا نے دلائل میں جرم کا اعتراف کیا ہے، ٹرانزیکشن مان کر قبول کیا گیا سیکشن 5 سی کے تحت جرم کیا ہے، پراسیکیوشن کی طرف سے کوئی بدنیتی شامل نہیں ہے، طارق شفیع نے تفتیش میں تعاون بھی نہیں کیا۔

اس دوران جج نے استفسار کیا کہ کیا وہ شامل تفتیش نہیں ہوئے؟ اسپیشل پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ شروع میں شامل تفتیش ہوئے تھے پھر تعاون نہیں کیا، جج نے کہا کہ آپ نے بینک سے مکمل ریکارڈ نہیں لیا؟ تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ ہماری اکاؤنٹس تک رسائی ہے مگر یہ کہتے ہیں خود ریکارڈ دیں گے۔

جج نے کہا کہ عمران خان کا کوئی وکیل اس وقت عدالت میں ہے؟ ہائی کورٹ نے ابھی اس عدالت کے لیے کوئی ڈائریکشن تو نہیں دی؟ معاون وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ ابھی ہائی کورٹ سے ایسا کوئی حکم سامنے نہیں آیا، ہائی کورٹ میں تو ان کی درخواست پر اعتراض لگا ہے، عمران خان کبھی کسی سرکاری ہسپتال میں کیوں نہیں گئے؟

اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ عمران خان کو کوئی ایسا سنجیدہ مسئلہ نہیں ہے ٹانگ میں معمولی کھچاو اور سوزش ہے، عمران خان کی نجی میڈیکل رپورٹ استثنیٰ کے لیے کافی نہیں، عمر رسیدہ ہونے کا مؤقف بھی قانون کے لیے اجنبی ہے۔

بینکنگ کورٹ کی جج رخشندہ شاہین نے عمران خان کی آج کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست مسترد کرتے ہوئے سابق وزیراعظم کو آج عدالتی اوقات یعنی ساڑھے 3 بجے تک پیش ہونے کا حکم دے دیا۔

جج بینکنگ کورٹ نے کہا کہ عمران خان کی آج کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست خارج کی جاتی ہے، اگر عمران خان پیش نہیں ہوتے تو قانون اپنا راستہ بنائے گا۔

ددوران سماعت اہم پیشرفت اس وقت سامنے آئی جب ایف آئی اے نے بیان دیا کہ عامر کیانی اور سیف اللہ نیازی کی گرفتاری کی ضرورت نہیں، اہلکار نے عدالت میں بیان دیا کہ ملزمان کی گرفتاری کی ضرورت نہیں۔

ایف آئی اے کے بیان کے بعد عامر محمود کیانی اور سیف اللہ نیازی نے درخواست ضمانت واپس لے لی، ملزمان بینکنگ کورٹ سے عبوری ضمانت پر تھے۔

بینکنگ کورٹ نے دوران سماعت ممنوعہ فنڈنگ کیس میں تین ملزمان طارق شفیع ، فیصل مقبول اور حامد زمان کی ضمانت کنفرم کردی، فیصلہ بنکنگ کورٹ کی جج رخشندہ شاہین نے سنایا۔

ملزمان طارق شفیع ،فیصل مقبول اور حامد زمان کی درخواست ضمانت 5,5 لاکھ کے ضمانتی مچلکوں کے عوض منظور کی گئی۔

عمران خان کی عبوری ضمانت پر سماعت ہوئی، وکیل عمران خان سلمان صفدر عدالت میں پیش ہوئے، انہوں نے مؤقف اپنایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ سے ریلیف مل گیا ہے، ہائی کورٹ نے میڈیکل گراؤنڈ پر ریلیف دیا ہے، ہائی کورٹ نے 22 تاریخ تک اس عدالت کو عبوری ضمانت سے متعلق فیصلہ دینے سے روک دیا ہے۔

جج بینکنگ کورٹ نے کہا کہ آرڈر کہاں ہے ، آرڈر کاپی دیں گے تو پھر دیکھیں گے ، بنکنگ کورٹ کی جج رخشندہ شاہین نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کی کاپی طلب کی جس پر وکیل عمران خان نے کہا کہ ہائی کورٹ کا آرڈر ابھی آ جائے گا، جج بینکنگ کورٹ نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا آرڈر آ جائے تو ہم دیکھ لیں گے۔

خاتون جج نے ریمارکس دیے کہ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ہائی کورٹ نے آرڈر میں ہمیں فیصلے سے روکا بھی کہ نہیں ، مجھے فیصلے کی کوئی کاپی ابھی موصول نہیں ہوئی، آپ فیصلے کی کاپی فراہم کر دیں، میں تصدیق کروا لیتی ہوں۔

اس دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کی کاپی فراہمی تک سماعت میں وقفہ کردیا گیا جب کہ اسپیشل پراسیکیوٹر کی عمران خان سے متعلق میڈیکل بورڈ بنانے کی درخواست عدالت میں دائر کی گئی۔

پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے کہا کہ ہماری استدعا ہے کہ اس درخواست پر دلائل سن لیں، عدالت نے درخواست کی کاپی عمران خان کے وکیل کو فراہم کرنے کی ہدایت کی، جج نے کہا کہ اگر ہائی کورٹ نے ہمیں ضمانت کی درخواست پر فیصلہ کرنے سے روکا ہوا تو پھر یہ درخواست دیکھ لیں گے، اگر فیصلے سے نہیں روکا گیا تو پھر ضمانت کی درخواست پر فیصلہ دوں گی۔

جج رخشندہ شاہین نے کہا کہ میں نے تصدیق کرلی ہے اسلام آباد ہائی کورٹ نے ہمیں روکا ہے، انہوں نے عمران خان کی ضمانت پر فیصلہ موخر کرتے ہوئے 18 فروری کو ہائی کورٹ کے حکم کی مصدقہ نقل جمع کرانے کا حکم دیا اور کیس کی سماعت 18 فروری تک ملتوی کردی۔

پس منظر

واضح رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے 2 اگست 2022 کو پی ٹی آئی کے خلاف 2014 سے زیر التوا ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ثابت ہوگیا کہ تحریک انصاف نے ممنوعہ فنڈنگ حاصل کی۔

فیصلے میں کہا گیا کہ تحریک انصاف کا نجی بینک میں اکاؤنٹ تھا اور نجی بینک کے منیجر کو بھی مقدمے میں شامل کیا گیا ہے۔

فیصلے کے مطابق نیا پاکستان کے نام پر بینک اکاؤنٹ بنایا گیا، بینک منیجر نے غیر قانونی بینک اکاؤنٹ آپریٹ کرنے کی اجازت دی، بینک اکاؤنٹ میں ابراج گروپ آف کمپنیز سے 21 لاکھ ڈالر آئے۔

مزید بتایا گیا کہ پاکستان تحریک انصاف نے ابراج گروپ کے بانی عارف نقوی کا الیکشن کمیشن میں بیان حلفی جمع کرایا تھا، ابراج گروپ کمپنی نے پی ٹی آئی کے اکاؤنٹ میں پیسے بھیجے۔

فیصلے میں بتایا گیا کہ بیان حلفی جھوٹا اور جعلی ہے، ووٹن کرکٹ کلب سے 2 مزید اکاؤنٹ سے رقم وصول ہوئی، نجی بینک کے سربراہ نے مشتبہ غیر قانونی تفصیلات میں مدد کی۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024