• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am

لاہور ہائیکورٹ: الیکشن کمیشن کو پنجاب اسمبلی کے انتخابات کیلئے تاریخ کا فوری اعلان کا حکم

شائع February 10, 2023
تحریک انصاف کی پنجاب میں الیکشن کی تاریخ دینے کی درخواست پر سماعت ہوئی — فائل فوٹو: لاہور ہائیکورٹ ویب سائٹ
تحریک انصاف کی پنجاب میں الیکشن کی تاریخ دینے کی درخواست پر سماعت ہوئی — فائل فوٹو: لاہور ہائیکورٹ ویب سائٹ

لاہور ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی درخواست منظور کرتے ہوئے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ کا فوری اعلان کرنے کا حکم دے دیا۔

پی ٹی آئی کی جانب سے پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ کے لیے دائر درخواست پر لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس جواد حسن نے سماعت کی تھی اور فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔

جسٹس جواد حسن نے مختصر فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد 90 روز میں انتخابات کرانے کا پابند ہے اور اسی لیے الیکشن کا شیڈول فوری طور پر جاری کیا جائے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’الیکشن کمیشن کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ صوبے کے آئینی سربراہ گورنر پنجاب سے مشاورت کے بعد پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نوٹیفکیشن کے ساتھ فوری کرے اور یقینی بنائے کہ انتخابات آئین کی روح کے مطابق 90 روز میں ہوں‘۔

’تاریخی فیصلہ‘

پی ٹی آئی کے نائب صدر فواد چوہدری نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو تاریخی قرار دیا۔

ٹوئٹر پر اپنے ردعمل میں فواد چوہدری نے کہا کہ ’آج جسٹس جواد حسن نے عدلیہ کا مان رکھ لیا، لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ تاریخی ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’آئین کا تحفظ عدلیہ کی بنیادی ذمہ داری ہے اور آج کا فیصلہ آئین اور قانون کی فتح ہے، وفاقی حکومت ہمارے ساتھ بیٹھے اور قومی الیکشن پر بات چیت کرے‘۔

سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ ’ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے میں فتح جمہوریت کی ہے اور جمہوریت میں جمہور ہی کو سنا جاتا ہے، انتخابات میں عوام فیصلے کریں گے، موجودہ بحران سے نکلنے کا واحد راستہ انتخابات ہیں’۔

دوسری جانب جیونیوز کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیرداخلہ رانا ثنااللہ نے کہا کہ حکومت کا اس حوالے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے کہ انتخابات کب ہوں۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ الیکشن کمیشن اور عدالتوں کے درمیان ہے‘۔

وفاقی وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ حکومت کا ماننا ہے کہ اگر عام انتخابات اور صوبائی انتخابات ایک ساتھ ہوتے ہیں تو وہ زیادہ صاف اور شفاف اور قابل قبول ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح انتخابی نتائج کو تسلیم کرلیا جائے گا اور ان انتخابات کی اہمیت ہوگی اور اگر جلدی انتخابات ہوتے ہیں تو جو لوگ ہاریں گے وہ لانگ مارچ اور احتجاج کریں گے۔

رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ اگر انتخابات ہوتے ہیں تو ہم تیار ہیں، اپریل میں ہوں یا اکتوبر میں یا ایک ساتھ ہوں ہم حصہ لیں گے۔

لاہور ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی کی درخواست پر حتمی سماعت

اس سے قبل جسٹس جواد حسن نے پی ٹی آئی کی درخواست پر پنجاب اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ کے لیے دائر درخواست پر حتمی سماعت کی جہاں فریقین نے دلائل مکمل کیے۔

سماعت کے آغاز پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا مشہود نے کہا تھا کہ گورنر کے وکیل شہزاد شوکت راستے میں ہیں، وہ آ رہے ہیں، جسٹس جواد حسن نے استفسار کیا کہ آئی جی پنجاب اور چیف سیکریٹری کو بھی بلایا تھا، وہ کہاں ہیں۔

دوران سماعت آئی جی پنجاب عثمان انور بھی لاہور ہائی کورٹ میں پیش ہوئے۔

جسٹس جواد حسن نے آئی جی سے استفسار کیا کہ آئی جی صاحب آپ الیکشن کے بارے میں کیا کہتے ہیں، جس پر آئی جی نے جواب دیا کہ میں ابھی آیا ہوں، مجھے اس کیس کے بیک گراؤنڈ کا نہیں پتا، ہم نے اپنی تجاویز الیکشن کمیشن کو دے دی ہیں، انتخابات سے متعلق جو الیکشن کمیشن کا فیصلہ ہوگا، ہم اس پر عمل درآمد کریں گے۔

جسٹس جواد حسن نے ریمارکس دیے کہ ہمیں بس آپ کی یقین دہانی چاہیے تھی، آئی جی پنجاب جانا چاہیں تو عدالت سے جاسکتے ہیں۔

اس دوران چیف سیکریٹری پنجاب نے کہا کہ ہم عدالت اور الیکشن کمیشن کے فیصلے پر عملدر آمد کرنے کے پابند ہیں، اس موقع پر عدالت نے چیف سیکریٹری کو بھی جانے کی اجازت دے دی۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض اٹھایا، انہوں نے استدلال کیا کہ یہ کیس صرف الیکشن کی تاریخ کے حوالے سے ہے، تاریخ دینا الیکشن کمیشن کا کام نہیں ہے، الیکشن کمیشن کو اس کیس میں فریق نہیں بنایا جاسکتا۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ کوئی ایسا قانون نہیں ہے کہ الیکشن کمیشن الیکشن کی تاریخ دے، اس کیس میں صدر پاکستان کو بھی فریق نہیں بنایا گیا، عدالت نے کل خود کہا کہ اس طرح کا آرڈر جاری نہیں کرے گے جس پر عملدرآمد نہ کرا سکیں، درخواست میں وفاقی حکومت کو بھی فریق نہیں بنایا گیا جس نے فنڈز جاری کرنے ہیں۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے عدلیہ سے رابطہ کیا انہوں نے ججز دینے سے انکار کر دیا کہ کیسز کی تعداد زیادہ ہے، پولیس، عدلیہ سمیت دیگر اداروں نے عملہ دینے سے انکار کردیا ہے، الیکشن کمیشن ایسے حالات میں کیسے الیکشن کروا سکتا ہے، ہمارے پاس فنڈ نہیں ہیں۔

جسٹس جواد حسن نے استفسار کیاکہ الیکشن کرانے کے لیے اسٹاف بھی چاہیے ہوتا ہے جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ جی اسٹاف بھی چاہیے ہوتا ہے اور اسٹاف کو دینے کے لیے فنڈ بھی چاہئیں ہوتے ہیں، ہمیں الیکشن کرانے کے لیے 14 ارب روپے کی ضرورت ہے، الیکشن کی تاریخ یا گورنر نے دینی ہے یا صدر نے دینی ہے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ قانون میں الیکشن کی تاریخ مؤخر ہو سکتی ہے، اگر قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے الیکشن ایک دن نہ ہوں تو شفاف الیکشن نہیں ہو سکتے، پنجاب اسمبلی کے الیکشن پہلے ہوں اور قومی اسمبلی کے بعد میں تو پنجاب میں نگران حکومت نہیں ہوگی، اگر پنجاب میں نگران حکومت نہیں ہوگی تو شفاف انتخابات کیسے ہو سکتے ہیں۔

ان کا مؤقف تھا کہ آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ الیکشن کمیشن عام انتخابات کی تاریخ دے گا، اگر یہ کہیں لکھا ہوگا تو میں عدالت سے باہر چلا جاؤں گا۔

گورنر پنجاب کے وکیل شہزاد شوکت نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ گورنر کا جواب عدالت میں جمع ہوچکا ہے، جسٹس جواد حسن نے کہا کہ آپ کا جواب ایک درخواست میں آیا ہے، وکیل گورنر پنجاب نے کہا کہ میرے پاس ایک ہی درخواست آئی تھی، اس جواب کو باقی درخواستوں میں تصور کیا جاسکتا ہے، اگر اسمبلی گورنر تحلیل نہ کرے تو خود بخود تحلیل ہو جاتی ہے۔

وکیل گورنر پنجاب نے کہا کہ گورنر نے آرٹیکل 105 کے تحت ایڈوائس پر عمل کرنا ہوتا ہے، اگر گورنر اسمبلی تحلیل کرتا ہے تو گورنر انتخابات کی تاریخ دینے کا پابند ہے، اگر اسمبلی خود بخود تحلیل ہوتی ہے تو گورنر انتخابات کی تاریخ دینے کا پابند نہیں ہے، آئین یہ نہیں کہتا کہ اسمبلی کی خود بخود تحلیل پر گورنر نے الیکشن کی تاریخ دینی ہے۔

جسٹس جواد حسن نے استفسار کیا کہ اگر اس کا جواب آئین میں نہیں تو کیا صدر مملکت کو کہا جاسکتا ہے، وکیل گورنر نے جواب دیا کہ آرٹیکل 48 کے مطابق صدر کا وہی کردار ہے جو گورنر کا ہے، نگران کابینہ کا تقرر گورنر ایڈوائس پر کرتا ہے۔

اس موقع پر گورنر کے وکیل نے تحریک انصاف کی درخواستیں مسترد کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ اگر گورنر تاریخ دینے کے پابند ہی نہیں تو درخواستیں مسترد ہو جانی چاہیے۔

تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے جواب الجواب پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئین میں واضح درج ہے کہ اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90 روز میں الیکشن ہوں گے، چیف سیکریٹری اور آئی جی پنجاب نے بھی کہہ دیا کہ وہ پھرپور معاونت کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ صدر مملکت الیکشن کی تاریخ دے سکتے ہیں، الیکشن کی تاریخ نہ دینے کو خالی نہیں چھوڑا جاسکتا۔

جسٹس جواد حسن نے استفسار کیا کہ الیکشن کی تاریخ دینے کا طریقہ کار کیا ہوتا ہے، وکیل تحریک انصاف نے کہا کہ نوٹی فکیشن کے ذریعے تاریخ کا اعلان کیا جاتا ہے، صدر تاریخ دینے سے انکار نہیں کر رہے، اگر عدالت حکم دے گی تو صدر تاریخ دے دیں گے، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی مدت پانچ سال ہوتی ہے۔

دوران سماعت پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے کہا کہ الیکشن کمیشن کہہ رہا ہے الیکشن کرانے کے لیے پیسے نہیں ہیں، یہ بیان انتہائی غیر سنجیدہ ہے، الیکشن کمیشن کا یہ بیان بین الاقوامی سطح پر مضحکہ خیز ہے، عدالت سے کہا جارہا ہے کہ پیسوں کی وجہ سے الیکشن نہیں ہوسکتے، عالمی سطح پر پاکستان کا امیج کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ کل کو کہا جائے گا کہ ان کے پاس الیکشن کروانے کے پیسے نہیں ہیں، یہ ملک ہمارا ہے، ہم نے یہاں پر ہی رہنا ہے، اس موقع پر تحریک انصاف نے فنڈز کی عدم دستیابی کا معاملہ ریکارڈ کا حصہ نہ بنانے کی استدعا کی۔

فریقین کے دلائل سننے کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب میں الیکشن کی تاریخ دینے کی تحریک انصاف کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔

سماعت کے بعد صوبائی الیکشن کمشنر پنجاب سعید گل نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن ہر وقت الیکشن کروانے کے لیے تیار ہے، مردم شماری کو بنیاد بنا کر الیکشن ملتوی نہیں کیے جاسکتے۔

صوبائی الیکشن کمشنر نے کہا کہ الیکشن کمیشن اور مردم شماری الگ الگ چیزیں ہیں، فنڈز کی فراہمی وفاقی حکومت کا کام ہے۔

پی ٹی آئی کی درخواست

یاد رہے کہ 14 جنوری کو وزیر اعلیٰ کی جانب سے سمری پر دستخط کرنے کے 48 گھنٹے مکمل ہونے پرپنجاب کی صوبائی اسمبلی از خود تحلیل ہوگئی تھی۔

اس کے بعد گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرنے سے گریز کیا تھا۔

چنانچہ پی ٹی آئی نے 27 جنوری کو پنجاب میں الیکشن کی تاریخ دینے کے لیے پاکستان تحریک انصاف نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

بیرسٹر علی ظفر کی وساطت سے دائر درخواست میں گورنر پنجاب کو بذریعہ سیکریٹری فریق بنایا گیا۔

درخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ آئین کے تحت اسمبلی تحلیل ہونے کے فوری بعد گورنر کو الیکشن کا اعلان کرنا ہے، گورنر پنجاب الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہیں کر رہے جو کہ آئین کی خلاف ورزی ہے، 10 روز سے زائد کا وقت گزر چکا ہے اور گورنر پنجاب کی جانب سے تاحال الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا۔

پی ٹی آئی نے کہا تھا کہ گورنر اپنے حلف کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ لاہور ہائی کورٹ پنجاب میں الیکشن کی تاریخ دینے کے لیے گورنر کو ہدایات جاری کرے۔

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024