معاہدہ تاحال نہ ہوسکا، پاکستان کا آئی ایم ایف شرائط پر اتفاق ہوگیا، وزیر خزانہ
وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے ہمیں اقتصادی اور مالیاتی پالیسیوں کی یادداشت (ایم ای ایف پی) کا ڈرافٹ فراہم کردیا گیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فریقین کے درمیان تاحال اسٹاف لیول معاہدہ طے نہیں ہوا۔
اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ عمران خان نے اپنے دور حکومت میں آئی ایم ایف کے ساتھ جو معاہدہ کیا تھا پی ڈی ایم کی حکومت اس کو پورا کر رہی ہے، ریاست کی جانب سے کیے گئے معاہدے کا اطلاق کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک پرانا معاہدہ ہے جو معطل بھی ہوا، اس میں تاخیر بھی ہوئی، اس پس منظر کو آپ ذہن میں رکھیں کہ کس نے یہ معاہدہ کیا تھا اور کب یہ معاہدہ ہوا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری حکومت اس معاہدے کا اطلاق کرنے کی کوشش کر رہی ہے، ہم اس پر عمل درآمد کی پوری تگ و دو کر رہے ہیں۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ ہمارے آئی ایم ایف مشن کے ساتھ 10 روز تک مذاکرات جاری رہے جس کے دوران پاور سیکٹر، مالیاتی شعبے سمیت دیگر اہم شعبوں پر تبادلہ خیال اور بات چیت کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز دوپہر تک ہم نے آئی ایم ایف کے ساتھ تمام اہم معاملات پر مذاکرات مکمل کرلیے تھے، بعد ازاں وزیر اعظم کے ساتھ آئی ایم ایف وفد کی زوم میٹنگ کا بھی انتظام کیا گیا، میٹنگ کے دوران طے شدہ معاملات پر گفتگو کی گئی اور وزیر اعظم نے کہا کہ ہم اپنی کمٹمنٹ پوری کریں گے۔
’مالیاتی پالیسیوں کی یادداشت (ایم ای ایف پی) ڈرافٹ فراہم کردیا گیا‘
اسحٰق ڈار نے کہا کہ آئی ایم ایف کی جانب سے ہمیں اقتصادی اور مالیاتی پالیسیوں کی یادداشت (ایم ای ایف پی) کا ڈرافٹ آج صبح 9 بجے فراہم کردیا گیا ہے جس کا ہم جائزہ لیں گے اور پھر ان کے ساتھ ہماری پیر کے روز ورچوئل میٹنگ ہوگی، ہم اس کو آگے لے کر چلیں گے، اس عمل میں مزید چند روز لگیں گے، اس کے بعد اسٹاف لیول معاہد ہوجائے گا۔
خیال رہے کہ ایم ای ایف پی ایک اہم دستاویز ہے جو ان تمام شرائط، اقدامات اور پالیسی اقدامات کو بیان کرتی ہے جن کی بنیاد پر دونوں فریق عملے کی سطح کے معاہدے کا اعلان کرتے ہیں۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف بورڈکی منظوری کے بعد پاکستان کو 1.2 ارب ڈالر کی قسط مل جائے گی۔
’بجلی سیکڑ کی لاگت 3 ہزار ارب، ریکوری صرف 18 سو ارب ہے‘
انہوں نے کہا کہ کچھ ایسے سیکٹرز ہیں جن کی اصلاح کرنا پاکستان کے اپنے مفاد میں ہے، ہم یہ برداشت نہیں کرسکتے کہ ملک کے کئی شعبے اسی طرح خسارے میں چلتے رہیں، معیشت اسی طرح غلط پالیسیوں کے تحت چلتی رہے، گزشتہ 5 برسوں کے دوران ہم نے 24 ویں بڑی معیشت سے اس کو 47 ویں نمبر پر آگئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک کے قرضے 70 فیصد بڑھ گئے، ناکام پالیسیوں کی وجہ سے مہنگائی کا طوفان آگیا، شرح سود آسمان پر لے گئے، ڈیٹ سروسنگ 5 ہزار ارب کے قریب پہنچا دیا، اس کے ذمے دار وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس کو غلط طریقے سے چلایا۔
ان کا کہنا تھاکہ اب ہمیں اس صورتحال کو ٹھیک کرنا ضروری ہے، بجلی سیکڑ کی لاگت 3 ہزار ارب روپے ہے جبکہ ریکوری صرف 18 سو ارب ہے، اس کی وجہ سے گردشی قرض میں اضافہ ہوتا ہے، اس لیے ہمیں اصلاحات کرنی ہوں گی، یہ اقدامات ہمارے لیے تکلیف دہ ہوں گے لیکن ہمیں ان کو کرنا ہوگا۔
’یکم مارچ، یکم اپریل کو ڈیزل پر 5، 5 روپے لیوی بڑھائیں گے‘
وزیر خزانہ نے کہا کہ 2013 میں بھی ہم نے اصلاحات کی تھیں، ہم اب بھی اصلاحات کرنے کے لیے تیار ہیں، آئی ایم ایف وفد کے ساتھ مذاکرات نتیجہ خیز رہے، تمام معاملات کلیئر اور واضح ہیں، کسی قسم کا کوئی ابہام نہیں ہے، کوشش کریں گے کہ پاکستان تاریخ میں دوسری مرتبہ آئی ایم ایف پروگرام مکمل کرے۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ 170 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کا اتفاق ہوا ہے، کوشش کریں گے کہ کوئی ایسا ٹیکس نہ لگائیں جس سے غریب طبقہ اور عام آدمی براہ راست متاثر ہو، یہ ٹیکس رواں مالی سال کے دوران ہی جمع کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ توانائی سیکٹر میں طے شدہ اصلاحات کو نافذ کریں گے، گیس سیکٹر اور توانائی سیکٹر میں بڑھتے خسارے کو روکیں گے، غیر ہدفی سبسڈی کو کم سے کم کریں گے، پیٹرولیم سیکٹر میں بھی گردشی قرضے کو کم کریں گے۔
اسحٰق ڈار نے کہا کہ پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی کا ٹارگٹ حاصل کیا جاچکا ہے جب کہ ڈیزل پر پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی اس وقت 40 روپے فی لیٹر ہے جسے بڑھا کر 50 روپے کیا جائے گا، اس کو یکم مارچ اور یکم اپریل کو 5، 5 روپے بڑھا کر پورا کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے آئی ایم ایف کو معاہدے پر عمل درآمد کی یقین دہانی کرائی ہے، پاکستان آئی ایم ایف پروگرام پورا کرے گا۔
’300 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے لائف لائن صارفین پر بوجھ نہیں ڈالا جاسکتا‘
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا بجٹ 360 ارب روپے سے بڑھا کر 400 ارب روپے کیا جائے گا تاکہ ملک کے غریب طبقے کو ریلیف فراہم کیا جاسکے۔
ان کا کہنا تھا کہ نئے ٹیکس لگانے کے لیے منی فنانس آرڈیننس لانا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ بجلی کے نرخوں میں اضافے کے اعداد و شمار جاری کر دیے جائیں گے لیکن 300 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے لائف لائن صارفین پر بوجھ نہیں ڈالا جاسکتا۔
ایک سوال کے جواب میں اسحٰق ڈار نے کہا کہ آئی ایم ایف کو اعتبار نہیں ہے، اس کی وجہ سابقہ حکومت ہے، اعتماد کا فقدان ہے، وہ کہتے ہی کہ اس ملک میں حکومت نے معاہدے پر عمل نہیں کیا بلکہ جب تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تو اس کو الٹا کردیا، اس اقدام نے پاکستان کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچایا۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے حالیہ مذاکرات کے دوران اس کا بہت منفی اثر رہا، وہ پر اعتماد نہیں تھے کہ ہم اپنی کمٹمنٹ پر عمل کریں گے یا نہیں، اس کا جواب میرے پاس یہ ہے کہ کوئی بتائے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے کوئی وعدہ کیا ہو اور اس کو پور ا نہیں کیا ہو، جس چیز پر آپ عمل نہیں کرسکتے، اس پر اتفاق نہیں کرنا چاہیے، اسی بات کی کمٹمنٹ کرنی چاہیے جس پر آپ عمل کرسکیں اور ہم نے ایسا ہی کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ یہ کہہ کر پاکستان کو بدنام کر رہے ہیں کہ ملک ڈیفالٹ کرگیا، انہیں سمجھائیں، اگر وزیر اعظم دوسرے ملکوں میں جاکر کہے گا جو کہ کہتا تھا کہ ہم بدعنوان ملک ہیں، تو کوئی ملک سرمایہ کاری کرے گا، ہر شخص کو غیر ذمے دارنہ بیانات سے گریز کرنا چاہیے۔
ایک سوال پر وزیرخزانہ نے کہا کہ نجکاری کا عمل آن ٹریک ہے، وزیراعظم نے خود گزشتہ ہفتے دو تین میٹنگز کی ہیں۔
’پیٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس عائد نہیں ہوگا‘
انہوں نے کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس کی شرط کو ہم نے تسلیم نہیں کیا اور آئی ایم ایف ٹیم نے بھی یہ شرط واپس لی ہے، اس پر اتفاق ہوا ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس عائد نہیں ہوگا۔
زرمبادلہ کے ذخائر کی گرتی صورتحال پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ دوست ممالک کے ساتھ کیے وعدے پورے ہوں گے اور ڈالرز موصول ہوں گے، ہم نے 414 ملین ڈالر کے غیر ملکی ذخائر پر بھی گزارا کیا ہے، اس لیے پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں ہے۔
واضح رہے کہ وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کی جانب سے پریس کانفرنس ایسے وقت میں کی گئی ہے جب کہ آئی ایم ایف نے اپنے مشن کے دورہ پاکستان کے بعد اعلامیہ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ قرض پروگرام کی بحالی کے حوالے سے پاکستان سے ’ورچوئل مذاکرات‘ جاری رہیں گے۔
اس میں کہا گیا تھا کہ آئی ایم ایف ٹیم میکرو اکنامک استحکام کے تحفظ کے لیے ضروری پالیسیوں پر عمل درآمد کے لیے وزیراعظم کے عزم کا خیر مقدم کرتا ہے اور تعمیری بات چیت پر حکام کا شکرگزار ہے، ملکی اور بیرونی عدم توازن کے خاتمے کے لیے پالیسی اقدامات پر مشن کے دورے کے دوران خاطر خواہ پیش رفت ہوئی۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز سیکریٹری خزانہ حامد یعقوب شیخ نے کہا تھا کہ تمام معاملات طے پاگئے ہیں اور پیشگی اقدامات پر اتفاق کیا گیا ہے، عملے کی سطح کے معاہدے کو آنے والے دنوں میں حتمی شکل دے دی جائے گی کیونکہ دورہ کرنے والے مشن نے بعض ان نکات پر اتفاق کیا تھا جو اس مینڈیٹ سے باہر تھے جس کے ساتھ وہ پاکستان آیا تھا۔
یعقوب شیخ نے کہا تھا کہ بدقسمتی سے وزیر خزانہ وعدے کے مطابق میڈیا سے بات نہیں کر سکے کیونکہ فنڈ کے مشن کا خیال تھا کہ واشنگٹن کی جانب سے حتمی بیان کی منظوری سے قبل کوئی بات چیت نہیں ہونی چاہیے۔