چین کے خلاف مفادات کا دفاع کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے، امریکی صدر
امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے وہ چین کے خلاف امریکی مفادات کا دفاع کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے لیکن بات چیت کا دروازہ کھلا رہے گا۔
غیرملکی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ آف دی یونین میں قانون سازوں سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ وہ چین کے خلاف اپنے ملکی مفاد کا دفاع کرنے سے نہیں گھبرائیں گے، تاہم تعاون کے دروازے کھلے رکھنے کا عزم کیا۔
رپورٹ کے مطابق قانون سازوں سے سالانہ تقریر میں امریکی صدر جو بائیڈن نے فوج، ٹیکنالوجی اور اتحاد میں امریکی سرمایہ کاری پر زور دیا تاکہ ملک کو بڑے پیمانے پر امریکی حریف کے طور پر دیکھا جائے۔
جو بائیڈن نے کہا کہ ’میں چین کے ساتھ کام کرنے کے لیے پرعزم ہوں جس میں وہ امریکی مفادات کو آگے بڑھانے کے ساتھ ساتھ دنیا کو فائدہ پہنچا سکتا ہے،لیکن اس حوالے سے کوئی غلطی نہ کریں، جیسا کہ ہم نے گزشتہ ہفتے واضح کیا تھا کہ اگر چین ہماری خودمختاری کو نقصان پہنچاتا ہے تو ہم اپنے ملک کی حفاظت کے لیے کام کریں گے اور ہم نے ایسا کیا بھی۔‘
جو بائیڈن نے کہا کہ مقابلے کے میدان میں چین سے جیتنے کے لیے امریکیوں کو متحد ہونا چاہیے۔
جو بائیڈن نے کہا کہ میں اس بات پر معذرت نہیں کروں گا کہ ہم امریکا کو مضبوط بنانے کے لیے سرمایہ کاری کر رہے ہیں، نئی ایجادات میں سرمایہ کاری کر رہے جو کہ ایسی صنعتوں کے مستقبل کا تعین کرے گی جس پر چین غلبہ حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
امریکی صدر نے کہا کہ انہوں نے چینی صدر شی جی پنگ سے کہا تھا کہ ’ہم مقابلہ چاہتے ہیں، تنازعہ نہیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن کی پوری تقریری میں چین ان چند خارجہ پالیسی مسائل میں سے ایک تھا جس کا انہوں نے مسلسل ذکر کیا۔
جو بائیڈن نے یوکرین کے لیے طویل مدتی مدد کا عزم کیا لیکن ایران، اسرائیل -فلسطین تنازع، شمالی کوریا یا ترکی اور شام میں آنے والے تباہ کن زلزلے کا کوئی ذکر نہیں کیا۔
چین نے مذاکرات مسترد کردیے ہیں، پینٹاگون
گزشتہ ہفتے 4 فروری کو ایک امریکی جنگی طیارے نے بحر اوقیانوس میں داخل ہونے والا ایک غبارہ گرایا تھا جس کے لیے پینٹاگون کا کہنا تھا کہ وہ چین کا جاسوسی غبارہ تھا۔
مبینہ جاسوس غبارہ گرانے کے واقعہ کی وجہ سے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اپنا چین کا دورہ ملتوی کرتے ہوئے چین پر امریکی خودمختاری کی خلاف ورزی کا الزام لگایا۔
انٹونی بلنکن نے کہا کہ انہوں نے چین کے ساتھ رابطہ برقرار رکھنے کی کوشش کی لیکن پینٹاگون کے ایک ترجمان نے کہا کہ چین نے مذاکرات کی درخواست مسترد کردی ہے۔
بریگیڈیئر جنرل پیٹ رائڈر نے کہا کہ وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے ’جاسوسی غبارہ‘ گرانے کے فوری بعد چینی ہم منصب سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی تھی۔
انہون نے کہا کہ بدقسمتی سے چین نے ہماری درخواست مسترد کردی لیکن بات چیت کا دروازہ کھلے رکھنے کا ہمارا عزم جاری رہے گا۔
تاہم چین کا کہنا ہے کہ غبارہ موسمی رجحان کا مشاہدہ کرنے والا طیارہ تھا جس کا کوئی فوجی مقصد نہیں تھا لیکن امریکا نے اسے ایک جدید ترین جاسوسی مشن قرار دیا ہے جو مبینہ طور پر کئی خفیہ فوجی مقامات پر سے گزری ہے۔
امریکی شمالی کمانڈ کے سربراہ جنرل گلین وان ہرک نے کہا کہ بحریہ کا ایک جہاز غبارے کے ذریعے چھوڑے گئے ملبے کا نقشہ بنائے گا جس سے بحر اوقیانوس میں تقریباً 1500 بائی 1500 میٹر کی پیمائش متوقع ہے اور غبارہ کے ملبے کا اچھی طرح سے مشاہدہ کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ’مجھے نہیں پتا کہ یہ ملبہ حتمی تجزیہ کے لیے کہاں جائے گا لیکن یقینی طور پر انٹیلی جنس کمیونٹی کے ساتھ ساتھ قانون نافذ کرنے والی کمیونٹی اس کو اچھی طرح سے دیکھے گی۔’