دہشت گردی کی حالیہ لہر کے پیچھے کیا وجوہات ہیں؟
پشاور کی پولیس لائنز مسجد میں ہونے والے خودکش بم دھماکے کے زخم ابھی تازہ ہیں اور یقینی طور پر یہ زخم جلد مندمل ہونے والے بھی نہیں۔ پشاور کے ایک حساس ترین علاقے میں ہونے والے اس خودکش بم دھماکے نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ اس دھماکے سے قبل کوئی تھریٹ الرٹ موجود نہیں تھا بلکہ حساس اداروں نے پولیس کو تھریٹ الرٹ جاری کردیا تھا۔ جمعہ 27 جنوری کو سیکیورٹی ہائی الرٹ تھی۔ خدشات تھے کہ خودکش حملہ آور کسی مسجد کو بھی نشانہ بناسکتا ہے۔ ماضی میں نماز جمعہ، نماز عید یہاں تک کہ نماز جنازہ تک کو نشانہ بنایا گیا۔ مقصد یہ ہوتا تھا کہ زیادہ سے زیادہ جانی نقصان پہنچایا جاسکے۔
جب جمعے کا دن خیریت سے گزرا تو پولیس نے سکھ کا سانس لیا لیکن شاید ان کو پتا نہیں تھا کہ وہ پیر کو بھی دھماکا کرسکتا ہے اور ایسا ہی ہوا۔ پیر کو خودکش حملہ آور پولیس کی وردی میں ملک سعد شہید پولیس لائنز پشاور میں موٹر سائیکل پر سوار داخل ہوا۔ گیٹ پر موجود پولیس اہلکار سے بات چیت بھی کی، اس سے مسجد کا راستہ پوچھا اور نماز ظہر کے وقت نمازیوں کی صف میں کھڑے ہوکر خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔
خیبرپختونخوا میں تشدد کی یہ لہر دوبارہ کیسے آئی؟ کیوں آئی؟ اور اس کا مستقبل کیا ہوگا؟ یہ جاننے کے لیے ہمیں اگست 2021ء میں جانا ہوگا۔ جب طالبان نے کابل پر قبضہ جمایا اور امریکی اتحادی اپنے افغان حکمرانوں سمیت افغانستان سے نکل گئے تو پاکستان میں خوشی کے شادیانے بجائے گئے کہ گویا طالبان کی فتح پاکستان کی فتح تھی۔ تاہم اس وقت بھی سنجیدہ حلقے پریشان تھے کہ جن قوتوں نے امریکا اور ان کے اتحادیوں کو شکست دی وہ اگر طاقت میں آگئیں تو وہ پاکستان جیسے ملک کو خاطر میں کہاں لائیں گی۔
ہمارے اکثر تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ افغان طالبان اب کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) پر دباؤ ڈالیں گے کہ وہ پاکستان کے آگے ہتھیار پھینک دیں (کیونکہ ایک طبقے کا خیال یہ تھا کہ یہ ہندوستان کی ایما پر کیا جا رہا ہے) لیکن ہم جیسے رپورٹرز جو اس جنگ کو 20 سال سے کور کررہے ہیں، ہمیں معلوم تھا کہ افغان طالبان مرجائیں گے لیکن وہ ٹی ٹی پی کا بال بھی بیکا نہیں ہونے دیں گے۔
افغان طالبان کا ماننا ہے کہ جب سابق صدر جنرل پرویز مشرف ان کو پکڑ پکڑ کر بیچ رہے تھے، جب ان پر ڈرون حملے کیے جارہے تھے، جب ان کو پاکستان کی جیلوں میں ڈالا جا رہا تھا، جب خصوصی ٹیمیں پاکستان میں ان کے گھروں پر چھاپے مار رہی تھیں تب یہ پاکستانی طالبان ہی تھے جنہوں نے ان کو گلے لگایا، ان کو اپنے گھروں میں پناہ دی، ان کا علاج کروایا اور ان کا ساتھ دینے پر ڈرون حملوں میں ان کے ساتھ ہی مارے گئے۔
افغان طالبان کا پاکستانی طالبان کے ساتھ ایک عجیب رشتہ ہے۔ خصوصاً خیبرپختونخوا کے ماضی میں رہنے والے قبائلی علاقوں کے طالبان اور افغان طالبان کا، البتہ بلوچستان کے طالبان کا انحصار پاکستانی طالبان پر اتنا نہیں تھا کیونکہ وہاں تحریک طالبان کی جڑیں اتنی مضبوط نہیں تھیں۔ تحریک طالبان کی قیادت اور اکثر طالبان کا تعلق خیبرپختونخوا سے رہا ہے۔ اس لیے قندھار کے افغان طالبان نے پاکستانی طالبان کو یہ تجویز پیش کی کہ وہ یا تو افغان مہاجر کارڈ بنوا کر پاکستان پر حملے روک کر آرام سے افغانستان میں رہیں یا پھر واپس اپنے ملک چلے جائیں۔ یہی وجہ تھی کہ افغان طالبان کے وزیر داخلہ سراج الدین حقانی جن کا پاکستانی طالبان پر سب سے زیادہ اثرورسوخ رہا ہے، انہوں نے پاکستان کو تجویز دی کہ معاملے کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے اور اس لیے مذاکرات شروع کیے گئے۔
چونکہ اس دور کے معاملات اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض اور وزیرِاعظم عمران خان کے ہاتھ میں تھے تو پاکستان انتہائی کمزور پوزیشن پر بات کرنے لگا تھا۔ کئی نقادوں کے لیے یہ پاکستانی سرینڈر کے مترادف تھا جس میں تمام جنگجوؤں کی خیبرپختونخوا کے ضم شدہ اضلاع میں دوبارہ آبادکاری اور تحفظ کی شرائط مان لی گئی تھیں۔
تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے مذاکراتی ٹیم کی سربراہی ٹی ٹی پی کے بانی رکن عبدالولی المعروف عمر خالد خراسانی کر رہے تھے، جنرل فیض اور تحریک انصاف کی حکومت نے جذبہ خیر سگالی کے طور پر درجنوں پاکستانی طالبان کمانڈروں کو جیل سے بھی رہا کر دیا جیسا کہ خود امریکا نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے دوران کیا تھا۔ عمر خالد خراسانی نے جب پاکستان کو کمزور وکٹ پر کھیلتے دیکھا تو مطالبہ کیا کہ ان علاقوں میں سابق فاٹا کو بحال کرکے ان کے حوالے کر دیا جائے تاکہ وہ یہاں اپنی شریعت پر مبنی حکومت قائم کر سکیں۔
اس تمام عمل میں عمر خالد خراسانی کو سخت گیر مذاکراتی رہنما کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔ تحریک انصاف کے اندرونی حلقے فوج کی طرف دیکھ رہے تھے لیکن عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی اس عمل کی مخالفت کر رہی تھیں۔ ان کا مؤقف تھا کہ پارلیمنٹ سے باہر کوئی فیصلہ بھی ان کو منظور نہیں ہوگا اور سابق فاٹا کی حیثیت ختم کرنے کا فیصلہ پارلیمنٹ نے کیا تھا اور اب اس حوالے سے کوئی فیصلہ کرنے کی مجاز بھی پارلیمنٹ ہی ہے۔
پاکستان کی نرمی سے فائدہ اٹھا کر کچھ طالبان اگست 2022ء میں باجوڑ، دیر اور سوات میں داخل ہوئے۔ کابل پر طالبان قبضے کے ٹھیک ایک سال بعد ان کا خیال تھا کہ وہ بھی فاتح کی حیثیت سے ان علاقوں میں داخل ہو جائیں گے۔ 7 اگست 2022ء کو عبدالولی المعروف عمر خالد خراسانی مار دیے گئے۔ جب کہ القاعدہ کے سربراہ ڈاکٹر ایمن الظواہری کابل میں ایک ڈرون حملے میں مارے گئے۔ صورتحال پاکستانی طالبان اور افغان طالبان دونوں کے لیے کافی مشکل ہوگئی۔ افغان طالبان نے وزیر داخلہ سراج حقانی پر غفلت کا الزام لگایا۔ دوسری جانب طالبان جنگجوؤں نے مطالبہ کیا کہ عمر خالد خراسانی کے قاتلوں کا سراغ لگا کر انہیں مارا جائے۔
تاہم اس صورتحال میں بھی کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ مفتی نور ولی محسود مسلسل یہ کہتے رہے کہ ان کی جانب سے غیر معینہ مدت تک جنگ بندی کی گئی ہے تاکہ مذاکرات کامیاب ہوں۔ تاہم دوسری جانب حکومت اور عمر خالد خراسانی کے قتل کے خلاف عمر خالد خراسانی کے گروپ نے پاکستان میں کارروائیاں دوبارہ شروع کر دیں۔ پاکستانی طالبان کی جانب سے کہا گیا کہ وہ دفاعی حملے کررہے ہیں۔ مہمند اور باجوڑ سے تعلق رکھنے والے جنگجوؤں کے دباؤ پر تحریک طالبان نے جنگ بندی کا خاتمہ کرتے ہوئے دوبارہ حملوں کا آغاز کردیا۔ اس دوران تحریک انصاف کی حکومت ختم ہوگئی اور مذاکرات بھی مسلسل تعطل کا شکار ہوئے۔
اس دوران پورے ملک میں سیاسی انتشار اور اقتصادی بدحالی نے امن وامان کے مسئلے سے توجہ ہٹائے رکھی۔ دوسری جانب کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی تنظیم پر توجہ دی اور نئی تنظیم سازی کی۔ ماضی میں یہ تنظیم قبائلی ساخت کے تابع رہی یعنی مختلف قبائلی علاقوں میں اپنے اپنے قبائل تنظیم کی سربراہی کرتے رہے۔ اس لیے مختلف زونز میں دوسرے علاقوں سے کمانڈرز لگائے گئے ہیں۔ اب تک ان کی یہ کوشش رہی تھی کہ پولیس اور سیکیورٹی فورسز پر حملے کریں اور عوامی مقامات کو جان بوجھ کر نشانہ نہیں بنایا تاہم اس بار پولیس مسجد پر حملے کے بعد جس طرح کا عوامی ردعمل آیا تو مرکزی تحریک طالبان پاکستان نے ذمہ داری نہیں لی بلکہ وضاحت جاری کی کہ ہم مساجد پر حملہ نہیں کرتے۔
تاہم ژوب بلوچستان میں ٹی ٹی پی کے کمانڈر سربکف مہمند نے جہاں اس حملے کی ذمہ داری قبول کی وہاں یہ بھی وضاحت کی کہ یہ عمرخالد خراسانی کے انتقام کے سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ سربکف مہمند کی ژوب میں ذمہ داریاں دینے کے پیچھے بھی یہی سوچ تھی کہ تنظیم میں نظم کو مزید مضبوط کیا جائے کیونکہ سربکف مہمند کا تعلق خیبرپختونخوا کے علاقے ضلع مہمند سے ہے۔ بہ ہرحال تنظیم میں واقعات کے حوالے سے یہ تقسیم موجود ہے۔ اس سے قبل بھی تحریک طالبان کے کمانڈر واقعات کی ذمہ داری قبول کرتے رہے اور مرکزی قیادت کی جانب سے ان واقعات کی ذمہ داری لینے سے گریز کیا گیا۔
اس وقت کچھ طالبان کمانڈروں کا یہ ماننا ہے کہ پورے خطے میں شریعت اور خلافت کے قیام کے لیے جہاد کا راستہ اپنایا جائے اور کچھ کا خیال ہے کہ مقامی فضا اور سماجی ساخت کو دیکھتے ہوئے شریعت کے نفاذ کی کوششیں کی جائیں۔
وزیرِاعظم شہباز شریف کی جانب سے ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں بھی اس صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ آگے جاکر کیا ہوگا؟ بہ ظاہر جو کمانڈر اور جنگجو اس خطے میں شریعت اور خلافت کے نفاذ کے لیے جہاد پر یقین کرتے ہیں وہ اس جنگ کو جاری رکھیں گے۔ جب کہ بات چیت کے ذریعے کچھ رہنماؤں، کمانڈروں اور جنگجوؤں کو امن کے لیے آمادہ کیا جائے گا۔ لیکن آنے والے دنوں میں پُرتشدد واقعات کو روکنے اور ان پر قابو پانے کے لیے حل ملک میں معیشت کی بحالی اور سیاسی انتشار کا خاتمہ ہے جو فی الوقت نظر نہیں آ رہا ہے۔