سندھ ہائیکورٹ: کیماڑی میں زہریلی گیس سے ہلاک تمام افراد کے پوسٹ مارٹم کا حکم
سندھ ہائی کورٹ نے کراچی کے علاقے کیماڑی میں زہریلی گیس سے ہلاک افراد کا مقدمہ سرکار کی مدعیت میں درج کرنےکا حکم دیتے ہوئےکہا ہے کہ واقعے میں مرنے والے تمام افراد کا پوسٹ مارٹم کرایا جائے۔
سندھ ہائی کورٹ میں کیماڑی میں زہریلی گیس سے ہلاکتوں کے کیس کی سماعت ہوئی، آئی جی سندھ، ڈپٹی کمشنر و دیگر سندھ ہائی کورٹ میں پیش ہوئے۔
عدالت نے آئی جی سندھ سے استفسار کیا کہ ابھی تک کتنے افراد ہلاک ہوئے ہیں؟ آئی جی سندھ نے جواب دیا کہ ابھی تک 18 افراد ہلاک ہوئے ہیں، جو ہمارے پاس آیا ہے ہم نے مقدمہ درج کیا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ایک سنگین جرم ہے، سرکار کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا جائے، پہلے بھی واقعہ ہوچکا ہے، ہم نے کہا تھا ایس ایس پی رینک کے افسر سے تحقیقات کرائی جائیں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیس کا تفتیشی افسر کون ہے، باقی مرنے والوں کا کیا ہوا ہے، مقدمہ درج ہوا؟
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ جو فیکٹری سیل کی گئی تھی وہ ڈی سی نے دوبارہ کھول دی ہے۔
جسٹس یوسف علی سعید نے ریمارکس دیے کہ مقدمہ درج ہوا ہے تفتیش ہوئی، اس کے بعد فائل بند، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
چیف جسٹس نے ہدایت دی کہ کیس کی تفتیش ایس ایس پی رینک سے کم افسر نہیں ہونا چاہیے، ہر مرنے والے کا پوسٹ مارٹم کرایا جائے۔
جسٹس یوسف علی سعید نے کہا کہ آئی جی صاحب! چند سالوں میں یہ دوسرا واقعہ ہے۔
چیف جسٹس نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ پوسٹ مارٹم کرایا تھا؟ تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ صرف ایک کا پوسٹ مارٹم کرایا ہے۔
تفتیشی افسر کی کارکردگی پر چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ آئی جی صاحب، یہ تفتیش کا معیار ہے آپ کی موجودگی میں۔
ڈپٹی کمشنر کیماڑی مختیار ابڑو نے کہا کہ میں نے فیکٹری کھولنے کی اجازت نہیں دی، ہم نے لوگوں سے کہا کہ ہمیں قبروں کا بتایا جائے، لوگ ہمیں قبروں تک کا نہیں بتا رہے ہیں۔
عدالت نے ڈپٹی کمشنر کیماڑی کو بولنے سے روکتے ہوئے کہا کہ آپ اپنی باری پر بات کریں۔
چیف جسٹس نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ ایسے لوگوں کو پوسٹنگ ہی نہیں دینی چاہیے، جو لوگ اہل نہیں ہیں انہیں ہٹائیں، یہ انسانی زندگی کا المیہ ہے۔
عدالت نے ڈی سی کیماڑی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا کام زمینوں کا ریکارڈ چیک کرنا ہے تفتیش کرنا نہیں ہے، آپ کا جو کام ہے وہ کریں۔
عدالت نے ہدایت دی کہ جو لوگ ہلاک ہوئے ان کے اہلخانہ سے رابط کر کے مقدمات درج کیے جائیں، معاملے کی تحقیقات سینئیر افسر سے کرائی جائے، اگر کوئی حقائق چھپائے تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔
بعد ازاں عدالت نے مزید سماعت 20 فروری تک ملتوی کردی۔
کیس کی سماعت کے بعد آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے ہمیں حکم دیا ہے کہ اعلیٰ سطح کی ٹیم تحقیقات کے لیے بنائی جائے، عدالت نے مرنے کی وجوہات معلوم کرنے کا کہا ہے، الگ مقدمہ درج کرنے جارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تفتیشی شعبے کو ٹھیک کرنے کے لیے ایک رات کا کام نہیں ہے، تفتیشی شعبے کو ٹھیک کرنے کے لیے وقت درکار ہے، اس کو بہتر بنانے کے لیے ہم درست سمت میں جارہے ہیں۔
پسِ منظر
خیال رہے کہ 27 جنوری کو محکمہ صحت سندھ نے کراچی کے کیماڑی میں پراسرار بیماری سے 18 اموات کی اطلاع پر علاقے کا دورہ کر کے تحقیقات کا آغاز کیا تھا۔
محکمہ صحت سندھ کے مطابق ڈسٹرکٹ کیماڑی کے مواچھ گوٹھ کے علاقے علی محمد گوٹھ میں پراسرار بیماری سے 18 اموات کی اطلاع پر محکمے کے افسران اور ڈاکٹرز پر مشتمل ٹیم نے علاقے کا دورہ کیا تھا۔
تحقیقات سے پتا چلا کہ رواں سال 10 سے 25 جنوری کے دوران بچوں سمیت مختلف عمر کے 18 افراد پراسرار بیماری کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ علاقہ مکینوں کے مطابق ان کے گاؤں کے اندر دو کارخانے بنائے گئے تھے جس کی وجہ سے بدبو پھیل رہی ہے جو ان کے گلے بھی خراب کر رہی ہے۔
محکمہ صحت نے بتایا تھا کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق ان اموات کی وجہ کچھ کیمیکل ہیں جو پھیپھڑوں کی بیماریوں کا سبب بن رہے ہیں، معاملے کی مزید تفتیش جاری ہے جبکہ متاثرہ علاقے میں نمونیا کے علاج کے لیے میڈیکل کیمپ بھی قائم کیے گئے ہیں۔
بعد ازاں 29 جنوری کو کراچی پولیس نے کیماڑی کے مواچھ گوٹھ میں غفلت اور زہریلے دھوئیں سے 18 افراد کے ہلاکت کا مقدمہ 3 فیکٹری مالکان کے خلاف درج کرلیا تھا۔