ایف نائن پارک ریپ کیس: آئی جی کو 24 گھنٹوں میں رپورٹ قومی اسمبلی میں جمع کرانے کی ہدایت
قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر زاہد اکرم درانی نے آئی جی اسلام آباد کو ہدایت کی ہے کہ ایف نائن پارک میں خاتون کے ریپ میں ملوث ملزمان کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے اور 24 گھنٹے کے اندر قومی اسمبلی میں واقعے کی رپورٹ جمع کروائی جائے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ڈپٹی سپیکر نے یہ فیصلہ اس وقت دیا جب متعدد اراکین اسمبلی نے ایوان کی توجہ ایف نائن پارک میں پیش آنے والے ریپ کے واقعہ کی جانب مبذول کرائی اور پارک کی سیکیورٹی کے ذمہ دار پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔
پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے مولانا عبدالاکبر چترالی نے واقعہ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کی کوئی رٹ نہیں ہے۔
محسن داوڑ نے واقعے کو ریاست کے لیے انتہائی شرمناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسے واقعات سے زیادہ ذلت آمیز کوئی چیز نہیں ہوسکتی۔
رکن قومی اسمبلی نے اراکین اسمبلی کو واقعے کے حوالے سے بریفنگ دینے کے لیے وزیر داخلہ کی پارلیمنٹ میں موجودگی کا مطالبہ کیا اور پولیس سے جرائم کی تفتیش کے حوالے سے باقاعدہ اپ ڈیٹس کی بھی استدعا کی۔
محسن داوڑ نے سوال کیا کہ غفلت کا ذمہ دار کون ہے؟ اگر وفاقی دارالحکومت کے ایک مرکزی پارک کے اندر ایسا واقعہ پیش آ سکتا ہے تو ملک کے دیگر حصوں میں کیا صورتحال ہو گی؟
رکن قومی اسمبلی شاہدہ رحمانی نے کہا کہ انہوں نے آئی جی اسلام آباد کو خط لکھ کر واقعے کی رپورٹ طلب کی ہے، یہ واقعہ ایک مخصوص ذہنیت کا نتیجہ ہے جس کے تحت ریپ کے متاثرین پر ہی الزام تراشی کی جاتی ہے، خواتین کو تحفظ فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے چاہے وہ رات 2 بجے باہر نکلیں۔
رکن قومی اسمبلی روحیل اصغر نے سوال کیا کہ عوامی مقامات کی حفاظت کا ذمہ دار کون ہے، پولیس اس طرح کے واقعات کی تحقیقات کی اپ ڈیٹس فراہم کرے۔
دوسری جانب پولیس کا کہنا ہے کہ تفتیش کاروں نے واقعے میں ملوث مجرمان میں سے ایک کا خاکہ جاری کردیا ہے تاکہ مجرموں کی شناخت میں مدد حاصل کی جا سکے۔
پولیس نے مزید کہا کہ وہ مجرموں کا سراغ لگانے کے لیے جیو فینسنگ پر بھی کام کر رہے ہیں، ایک فارنزک ٹیم نے واقعے کے 4 روز بعد جائے وقوعہ کا دورہ بھی کیا تاکہ شواہد اکٹھے کیے جاسکیں۔
دیگر پولیس افسران کا کہنا ہے کہ اس طرح کے واقعات اس وقت رونما ہوتے ہیں جب پولیس اہلکار عوام کے جان و مال کے تحفظ جیسے اولین فرض کو بھول جاتے ہیں اور ایسے غیر متعلقہ مصروفیات میں لگ جاتے ہیں جن کا پولیس کے قواعد میں ذکر نہیں ہے۔
ایف نائن پارک کے باہر احتجاج
ایف نائن پارک میں ریپ کے واقعے کی متاثرہ خاتون سے اظہار یکجہتی کے لیے بولان گیٹ کے باہر 100 سے زائد مظاہرین جمع ہوئے جن میں زیادہ تر نوجوان خواتین شامل تھیں، مظاہرین نے خواتین کے خلاف تشدد میں بے لگام اضافے پر احتساب کا مطالبہ کیا۔
ویمن ڈیموکریٹک فورم کے زیر اہتمام مظاہرہ ایک گھنٹہ سے زائد جاری رہا اور شام کے وقت اختتام پذیر ہوا جب شرکاء نے پارک کی طرف مارچ کیا اور یکجہتی کے طور پر اس کے گیٹ پر اپنے دوپٹے (اسکارف) لٹکائے۔
مظاہرین سے خطاب کرتے سماجی کارکن عصمت شاہجہاں نے کہا کہ ’ہمارے بچوں کا پرامن مستقبل صرف مکمل طور پر سماجی تبدیلی کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے کیونکہ ایسا نظام جو خواتین اور بچوں کو تحفظ نہیں دیتا اسے ختم کر دینا چاہیے۔
سیاسی اشرافیہ کی بے حسی پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ ریاست سے پوچھنا چاہتی ہیں کہ موجودہ صورتحال اور خاص طور پر خواتین اور دیگر اقلیتوں کے خلاف تشدد میں اضافے کا ذمہ دار کون ہے۔
احتساب کا مطالبہ کرتے ہوئے انہوں نے سوال کیا کہ پولیس حکام اور سی ڈی اے کا عملہ پارک کے احاطے میں ہونے والی زیادتی کو روکنے میں کیسے ناکام رہے۔
سماجی کارکن فرزانہ باری نے کہا کہ احتجاج میں مظاہرین کی تعداد مایوس کن ہے حالانکہ اس بھیانک عمل سے قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دینا چاہیے تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو خواتین اور دیگر کمزور گروہوں کے لیے عوامی مقامات محفوظ بنانے کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے۔
احتجاج کے منتظمین میں سے ایک اریبہ نے کہا کہ ’امید تھی کہ زیادہ لوگ احتجاج میں شرکت کریں گے لیکن مظاہرین کی تعداد مایوس کن تھی، بحیثیت قوم ہم اندر سے مر چکے ہیں‘۔