پیپلز پارٹی کا یوسیز کے ضمنی انتخاب سے قبل میئر کراچی کا انتخاب کرانے کا مطالبہ
پاکستان پیپلز پارٹی نے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ 11 یونین کمیٹیوں (یو سی) پر جہاں امیدواروں کے انتقال کرجانے کے باعث الیکشن نہیں ہو سکے تھے وہاں ضمنی انتخابات سے قبل سٹی میئر کا انتخاب کرائے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 15 جنوری کو کراچی میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں سب سے بڑی جماعت کے طور پر سامنے آنے والی پیپلز پارٹی کے رہنما، سندھ کے وزیر محنت اور انسانی وسائل سعید غنی نے یہ بات متحدہ قومی موومنٹ کے سابق ایم این اے خواجہ سہیل منصور اور کچھ دیگر افراد کو پارٹی میں خوش آمدید کہنے کے لیے منعقدہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
پیپلزپارٹی کراچی ڈویژن کے صدر مسٹر غنی نے کہا کہ اگر الیکشن کمیشن پاکستان میئر کراچی کے انتخاب کو شہر کی خالی یوسیز پر ہونے والے ضمنی انتخابات تک ملتوی کرے گا تو اس سے خطرناک مثال قائم ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے اس طرح کے فیصلے سے نیا پنڈورا باکس کھل جائے گا جو وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے عہدوں کے لیے ہونے والے آئندہ انتخابات کے لیے بھی سنگین مسائل پیدا کر دے گا۔
انہوں نے کہا کہ مخصوص نشستوں پر انتخابات کے ساتھ ہی سٹی کونسل کا ہاؤس مکمل ہوجائے گا۔
صوبائی وزیر نے کہا کہ پیپلزپارٹی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے بعد فوری طور پر مخصوص نشستوں، میئر اور چیئرمینز کے لیے انتخابات کرائے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن پاکستان کی جانب سے اب تک شہر کی کسی ایک یونین کمیٹی میں بھی بلدیاتی انتخابات کے نتائج کا باضابطہ ایک بھی نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کو شہر کے کچھ حلقوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے لیے جماعت اسلامی کی جانب سے دائر درخواستوں پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
سعید غنی نے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ ہمارے امیدواروں کی جانب سے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے لیے دائر درخواستوں پر اسی طرح غور کیا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی کراچی کے 9 حلقوں سے آئندہ ضمنی انتخابات میں حصہ لے گی۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ جماعت اسلامی بھی ان ضمنی انتخابات میں مقابلہ کرے تاکہ لوگوں کو شہر میں دونوں جماعتوں کی مقبولیت کا پتا چل جائے، لوگوں کو علم ہونا چاہیے کہ جماعت اسلامی نے 2002 کے بعد کے تمام انتخابات میں شہر سے کتنے ووٹ لیے۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو شہر میں حلقوں کی حد بندی کرنے کا اختیار دیا گیا ہے، قانون کے مطابق ہر حلقے کی آبادی 50 ہزار 75 ہزار کے درمیان ہوسکتی ہے جب کہ ووٹرز کی تعداد میں 10 فیصد تک کا فرق ہوسکتا ہے۔
وزیر محنت سندھ نے کہا کہ کراچی میں 246 یونین کمیٹیوں میں سے صرف کراچی کے مضافاتی علاقوں کی 3 یوسیوں کی آبادی 30 ہزار سے کم ہے۔
انہوں نے کہا کہ 2013 تک بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے لیے حکومت کو حلقوں کی حد بندی کو حتمی شکل دینے کا اختیار دیا گیا تھا۔