ایک فضائی میزبان کی آپ بیتی: شوکت عزیز کا جہاز اور پائے کا سالن
اس سیریز کی بقیہ اقساط یہاں پڑھیے۔
اس نوکری نے سامان پیک کرنے میں اتنا ماہر کر دیا ہے کہ اکثر کہیں جانے کے لیے بیوی اور بیٹے کا سوٹ کیس یا ٹرالی بیگ بھی میں ہی پیک کر دیتا ہوں۔ جگہ کم ہو لیکن چیزیں ترتیب سے رکھی جائیں تو زیادہ سامان رکھنے کی جگہ نکل آتی ہے۔
عربی کا ایک مقولہ ہے ’السفر سقر ’ یعنی کہ ’سفر عذاب ہے‘ اور اس عذاب میں بھاری اعمال کا بوجھ معاف کیجیے گا، بھاری سامان بھی ساتھ ہو تو مزہ دوبالا ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ چنانچہ سفر میں ہمیشہ ضروری استعمال کی اور کم از کم چیزیں ہی رکھنی چاہئیں۔ لیکن اس نوکری میں جان کے معمولی خطرے کے علاوہ ایک اور خطرہ بھی ہوتا ہے۔
وہ یہ کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آپ گھر سے 2 دن کے لیے نوکری پر جاتے ہیں لیکن آپ کی خدمات کچھ مزید پروازوں پر حاصل کرنے کے لیے روک لیا جاتا ہے اور آپ کو واپس گھر پہنچنے میں 6 دن لگ جاتے ہیں۔ اس صورتحال کے لیے عملے کے سامان میں دو ایک اضافی جوڑوں کا انتظام لازمی ہوتا ہے۔
ایک مرتبہ میں لاہور سے پیرس کی پرواز پر نکلا جس کی واپسی 2 دن بعد اسلام آباد میں تھی۔ کسٹم والوں کی بے ترتیب جانچ کی قرعہ اندازی میں میرا نام نکلا اور میں نے بیگ کھول کر کاؤنٹر پر دھر دیا۔ سلیقے سے طے شدہ کپڑے دیکھ کر ساتھی خاتون کو یقین نہیں آیا کہ یہ بیگ میں نے پیک کیا ہے۔ انہوں نے ساری تعریف میری بیگم کے کھاتے میں ڈال دی۔ اسلام آباد پہنچ کر آفس سے فون آیا کہ آرام مکمل کرنے کے بعد آپ نے برمنگھم جانا ہے۔ اس موقع پر اضافی کپڑے کام آئے۔ شکر ہوا کہ اس پرواز کے بعد گھر واپسی ہوگئی ورنہ کپڑوں کی حالت یہ ہوتی کہ خود ہی دھو دھو کر پہننے پڑتے۔
عملے کا ایک درجہ اور ہوتا ہے۔ اس میں شامل ساتھیوں کو وی وی آئی پی عملہ کہا جاتا ہے۔ یہ عملہ ملک کے قائم مقام صدر اور وزیرِاعظم کے فضائی سفر کے دوران خدمات سر انجام دیتا ہے۔ ان کو زیادہ تیاری کے ساتھ جانا پڑتا ہے کیوں کہ صدور اور وزرائے اعظم کے پلان تو کبھی بھی تبدیل ہوسکتے ہیں۔ مجھے بھی ایک مرتبہ عملے کے اس خصوصی درجے میں شمولیت کے لیے نامزد کیا گیا تھا مگر شاید کسی اور کی نام ’زدگی‘ کی وجہ سے میرا انتخاب نہیں ہوسکا۔
صدر اور وزیرِاعظم کے جہاز کی اندرونی ترتیب/سیٹنگ بدلی بھی جاسکتی ہے۔ اس کے لیے بلک ہیڈ (Bulk Head) جو عام طور پر المونیم سے بنی مصنوعی دیواریں ہوتی ہیں جن کو جہاز کی درجہ بندی (فرسٹ/اکانومی کلاس) کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، کو کام میں لایا جاتا ہے۔ انہیں کو اگر جہاز کی نشستیں نکال کر ذرا کم فاصلے پر لگا دیا جائے تو یہ ایک کمرے کی شکل اختیار کر لیتی ہیں جیسا کہ آج کل اماراتی جہازوں میں مسافروں کے لیے باقاعدہ کمرہ خرید کر سفر کرنے کی یہ سہولت موجود ہے۔
2005ء میں شوکت عزیز صاحب وزیرِاعظم پاکستان تھے۔ ان کی وزارتِ عظمیٰ کا پہلا سال تھا اور میرا فضائی میزبانی کا۔ مالٹوں کا موسم تھا اور وزیرِاعظم مالٹا کے دورے سے تشریف لائے تھے۔ میں اسلام آباد میں تعینات تھا۔ آفس سے کال آئی کہ جہاز کو اسلام آباد سے کراچی لےکر جانا ہے۔ ہوائی اڈے پہنچ کر معلوم ہوا کہ وزیرِاعظم کے زیر استعمال جہاز کو لےکر جانا ہے۔
اس جہاز پر بلک ہیڈز (مصنوعی دیواروں) کو جوڑ کر وزیراعظم صاحب کے لیے ایک کمرہ اور کانفرنس روم بھی بنایا گیا تھا جس کو دیکھ کر مجھے انگریزی فلم ایئر فورس ون میں امریکی صدر کا جہاز یاد آگیا۔ عملے کی کام کرنے کی جگہ اور مخصوص نشستیں ویسی ہی اپنی جگہ پر قائم تھیں۔ اس کے علاوہ ہنگامی حالات میں استعمال ہونے والے آلات بھی وہیں رکھے تھے جہاں ہونے چاہئیں۔
خیر ہم عملے کے سامان کی پیکنگ کر رہے تھے۔ گرمیوں میں یہ حساب ہوتا ہے کہ دو چار ٹی شرٹ اور ایک جینز میں گزارا ہو جاتا ہے لیکن سردیوں میں جیکٹ اور سویٹر کافی جگہ گھیر لیتے ہیں۔ ویسے تو یورپ اور خاص طور پر انگلینڈ کی پروازوں پر تو ایک جیکٹ رکھنا لازمی ہوتا ہے کیوں کہ وہاں موسم کا ڈالر کے ریٹ کی طرح کوئی اعتبار نہیں۔ اس کے علاوہ دنیا بھر میں فضائی عملے کے بہت سے اراکین اپنے سامان میں تھوڑا سا کھانا بھی رکھتے ہیں۔ اسے ’فرسٹ میل‘ (First Meal) کہا جاتا ہے۔ یہ تھوڑا سا کھانا پرواز کے بعد ہوٹل پہنچ کر بہت کام آتا ہے۔
عام استعمال کی چند دوائیں بھی دنیا بھر کے اکثر عملے کے بیگ میں ہوتی ہیں۔ مگر وہ کسی صورت بھی مسافروں کو دینے کی اجازت نہیں ہوتی۔ مسافروں کے لیے ابتدائی طبی امداد کا سامان اور ضرورت پڑنے پر ڈاکٹر میڈیکل کٹ (Doctor Medical Kit) ہر جہاز پر موجود ہوتی ہے۔ وقت اور موسم کے تغیر کا سامنا عملے کے ہر فرد کو اس وقت تک رہتا ہے جب تک وہ یہ نوکری کرے۔ پھر گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے سے پیٹ بھی کبھی کبھار پناہ مانگنے پر مجبور ہو جاتا ہے چناں چہ سر درد، پیٹ کی خرابی اور الرجی کی دوائیں عملے کے اکثر اراکین اپنے پاس رکھتے ہیں۔
جب جہاز کے دروازے لینڈنگ کے بعد کھلتے ہیں تو جہاز کے اندر ہوا کا دباؤ (جو کہ بلندی پر آکسیجن کا تناسب قائم رکھنے کے لیے مصنوعی طور پر خودکار نظام کے تحت بنایا جاتا ہے) باہر کے ماحول کی سطح پر آنا شروع ہو جاتا ہے۔ یہی دباؤ مسافروں اور عملے کے جسم پر بھی ہوتا ہے۔ جب یہ دباؤ ختم ہوتا ہے اور جسم آرام محسوس کرتا ہے تو بھوک لگ جاتی ہے جس کے نتیجے میں ہوٹل پہنچنے تک پیٹ میں روایتی چوہوں کے بجائے بحر ظلمات والے گھوڑے دوڑنے لگ جاتے ہیں۔ اس وقت وہ ساتھ رکھا کھانا (First Meal) من و سلویٰ کا کام دیتا ہے کیوں کہ تھکن کا عالم ناقابلِ بیان ہوتا ہے، کمار سانو سے معذرت کے ساتھ بس یوں سمجھیں کہ ’تھکن کا عالم میں کیا بتاؤں تمہیں‘۔
بس ایک بار میں کھانا جہاز پر ہی بھول آیا۔ مانچسٹر کی پرواز کے بعد ہوٹل پہنچ کر سوچا اب کون باہر جائے کھانا کھانے۔ دن خراب تھا کہ ہوٹل بھی معمول سے مختلف تھا جس کے قرب تو کیا بعید و جوار میں بھی کوئی ڈھنگ کا کھانا ملنے کا امکان نہ تھا۔ صبر کرکے بسکٹ کا پیکٹ نکالا ہی تھا کہ ایک سینئیر ساتھی کا فون آیا کہ ’آو خاور کھانا آیا ہے‘۔ فشار خون نے حاجی سلطان گولڈن کی کار کی طرح رفتار پکڑی اور میں چشمِ زدن میں ساتھی کے کمرے میں تھا۔ ان کا دوست گھر سے پائے بنوا کر لایا تھا۔ بس صاحبو اس دن میں نے جانا کہ صبر کا پھل ’پایا‘ کا کیا مطلب ہوتا ہے۔