ایران: دوران حراست بھوک ہڑتال، سماجی کارکن کی لاغر حالت میں تصاویر پر تشویش کی لہر
ایران میں حجاب پہننے کی پابندی کے خلاف مظاہروں کی حمایت میں دوران حراست بھوک ہڑتال کرنے والے ایرانی ڈاکٹر کی انہائی لاغر حالت میں تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی ہیں جس نے عوامی سطح پر شدید غم و غصے اور تشویش کو جنم دیا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع خبررساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق 53 سالہ فرہاد میسامی اسکارف پالیسی کے خلاف احتجاج کرنے والی خواتین سماجی کارکنوں کی حمایت کرنے پر 2018 سے جیل میں ہیں۔
ان کے وکیل نے بتایا کہ انہوں نے 7 اکتوبر کو مظاہرین پر حکومت کی جانب سے تشدد کے نتیجے میں ہلاکتوں کے خلاف بھوک ہڑتال کی۔
لیکن ایرانی عدلیہ نے ان کی بھوک ہڑتال کے دعوے کی تردید کی اور کہا کہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی تصاویر 4 سال پہلے کی ہیں جب فرہاد میسامی نے بھوک ہڑتال کی تھی۔
طلبہ کی زیر قیادت نیم سرکاری نیوز ایجنسی ینگ جرنلسٹس کلب نے ثبوت کے طور پر فرہاد میسامی کی تصاویر پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کی تازہ ترین تصویر ہے، جس میں وہ کمزور دکھائی نہیں دیتے اور وہ اپنے جیل کی کوٹھری کے فرش پرمبینہ طور پر ایک چپس کے بیگ کے ساتھ بیٹھے ہوئے نظر آئے، مذکورہ خبر رساں ایجنسی اس بات کی تصدیق کرنے سے قاصر ہے کہ یہ تصاویر کب لی گئیں۔
16 ستمبر کو پولیس کی حراست میں ایرانی کرد خاتون مہسا امینی کی موت کے بعد ملک بھر میں بدامنی اور مظاہروں نے ایران کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
وکیل محمد مغیمی نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ ’میرے مؤکل فرہاد میسامی کی جان کو خطرہ ہے، انہوں نے سڑکوں پر حالیہ احتجاج کے دوران مظاہرین کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کے خلاف احتجاجاً بھوک ہڑتال کی ہے اور ان کا وزن 52 کلو کم ہوگیا ہے‘۔
اس حوالے سے امریکا کے خصوصی سفیر برائے ایران رابرٹ میلے نے ٹوئٹ کیا کہ ’خواتین کے حقوق کے لیے جیل میں بھوک ہڑتال کرنے والے ڈاکٹر فرہاد میسامی کی تصاویر چونکا دینے والی ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ایران کی حکومت نےانہیں اور ہزاروں دیگر سیاسی قیدیوں کو ان کے حقوق اور آزادی سے ناحق محروم کر رکھا ہے، اب اس غیر منصفانہرویے سے ان کی جان کو خطرہ ہے’۔