• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

موجودہ اقتصادی صورتحال میں اصلاحات کی ضرورت کیوں؟

شائع February 7, 2023

لکھاری لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں، اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔
لکھاری لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں، اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔

حالیہ دنوں میں ہماری معاشرے میں سب سے زیادہ زیرِبحث یہی موضوع ہے کہ آیا آئی ایم ایف پروگرام دوبارہ بحال ہوسکے گا یا نہیں۔ اگر بحال ہوگا تو آخر کب؟

امید کی جارہی ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے ساتھ ہی دوست ممالک سے امداد اور دیگر مالیاتی اداروں سے قرضوں کے پروگرام بھی بحالی کی جانب گامزن ہوں گے۔ لیکن یہ بات تو اب واضح ہے حتیٰ کہ دوست ممالک بھی ہمیں یہی مشورہ دیتے ہیں کہ اب پاکستان کو امداد اور قرضے کی امیدیں لگانے سے قبل اپنے اندرونی استحکام کے لیے کوششیں کرنی ہوں گی۔

اگر اندرونی استحکام کو ممکن نہیں بنایا جاتا تو پھر پاکستان کو مزید قرضے اور امداد دینے کا آخر فائدہ کیا ہے؟ آئی ایم ایف پروگرام اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ پاکستان استحکام کے قیام کے لیے سنجیدگی سے ابتدائی اقدامات لے رہا ہے۔

موجودہ حالات میں یہ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان اپنے اندرونی مسائل پو قابو پاسکتا ہے؟ اصلاحات لانے میں اس حکومت کی ہچکچاہٹ بھی گزشتہ حکومتوں جیسا ہی ہے۔ اصلاحات لانا سخت فیصلہ ہوگا اور اس کی بھاری قیمت بھی چکانی ہوگی۔ وقتی طور پر ان سے ملک کے متعدد شعبوں مشکلات کا سامنا ہوگا۔ حکومتیں اپنے ووٹرز اور عوامی مقبولیت کھو جانے کے ڈر سے یہ قیمت ادا کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔

گزشتہ حکومتیں اصلاحات لانے سے کتراتی رہیں جس کی وجہ سے معاملات مزید خراب ہوتے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ اب بڑے پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے۔ کیا کوئی حکومت اصلاحات لانے کے لیے سیاسی قیمت ادا کرسکتی ہے؟ کیا حکومت اور حزبِ اختلاف اصلاحات کے لیے ایک صفحے پر آسکیں گے؟ یہ دونوں منظرنامے ہی ناممکن نظر آرہے ہیں۔

امکان یہی ہے کہ موجودہ حکومت آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے لیے کم از کم درکار اقدامات کرے گی تاکہ ایک بار پھر وہ دوست ممالک سے امداد لے سکے۔ پھر کچھ وقت کے لیے یہ تمام مسائل ٹل تو جائیں گے لیکن اگلی حکومت کے لیے یہ پھر گلے کا طوق بن جائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسائل کا یہ دلدل مزید گہرا ہوتا جائے گا لیکن شاید حکومتِ وقت اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ کچھ وقت بعد یہ مسائل کسی دوسری حکومت کی ذمہ داری بن جائیں گے اور ہم اپنی زندگی یونہی بحران کی صورتحال میں گزارنے پر مجبور رہیں گے۔

یہاں ایک اور مسئلہ بھی درپیش ہے۔ کچھ حلقوں نے ’ری امیجنگ پاکستان‘ کے حوالے سے مکالمہ شروع کیا ہے۔ اس حوالے سے کچھ پروگرام اور مباحث ہوئے ہیں۔ لیکن ان مباحثوں سے ایک چیز واضح ہے کہ درج ذیل سوالات پر زیادہ توجہ نہیں دی جارہی ہے۔

  • ہمیں اپنے بنیادی مسائل سے نمٹنے کے لیے بڑے پیمانے پر کن اصلاحات کی ضرورت ہوگی؟
  • ان اصلاحات پر عمل درآمد کیسے ممکن ہوگا؟
  • جو اتحادی تبدیلی کے عمل درآمد کے ذمہ دار ہوں گے، انہیں کیسے تشکیل دیا جائے گا اور پائیدار بنایا جائے گا؟

لیکن سوال یہ بھی ہے کہ بڑے پیمانے پر آخر کیا اصلاحات کی جائیں گی؟ سب سے پہلے ہمیں معیشت کے شعبوں میں بنیادی اصلاحات کو یقینی بنانا ہوگا۔ قانونی اصلاحات، جائیداد کے حقوق اور مارکیٹوں کے حوالے سے اصلاحات کو بھی شامل کرنا ہوگا۔ ٹیکس کے نظام، خصوصی طور پر پراپرٹی ٹیکس اور دیگر مقامی ٹیکسوں میں اہم تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔ علاوہ ازیں اخراجات کی ترجیحات میں بھی بہت سی تبدیلیاں لانا ہوں گی۔

تعلیم، صحت اور سماجی بہبود کی پالیسیوں میں بھی اہم تبدیلیوں کی ضرورت ہوگی۔ اعلیٰ تعلیم کی پالیسیوں میں ترمیم کی ضرورت ہوگی۔ بلکہ اس ملک میں شاید ہی ایسا کوئی محکمہ ہو جہاں اصلاحات کی ضرورت نہ ہو۔ لیکن اصلاحات کے نفاذ سے پہلے ہمیں اس حوالے سے تفصیلی لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا۔

موجودہ مباحث اور معاشرے میں ہونے والی گفتگو سے واضح ہوتا ہے کہ ہم نے شعبہ جاتی سطح پر کوئی اقدامات نہیں کیے ہیں۔ اگر حکومت مستقبل میں گہری اصلاحات کو لےکر سنجیدہ ہوتی ہے تو ہمارے پاس تمام معلومات ہونی چاہیے کہ کیسے دیگر محکموں میں اصلاحات پر کامیاب عمل درآمد کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔

تعلیم کے شعبے سے متعلق چند تجاویز میری نظروں سے گزریں۔ ہمارا تعلیمی نظام نہایت کمزور ہے۔ بہت سے بچے اسکول جانے سے محروم ہیں جبکہ سرکاری اور نجی اسکولوں میں موجود طلبا کو معیاری تعلیم کی سہولت میسر نہیں ہے۔

اس کے باوجود صرف نظام کی نجکاری اور تعلیمی واؤچرز وغیرہ دینے کی تجاویز ہی پیش کی جاتی ہیں۔ ان چیزوں کا اصل معاملات سے کوئی گہرا تعلق نہیں تھا اور نہ ہی ان تجویز کردہ اصلاحات پر عمل درآمد یا ان کو تجویز کرنے کی وجہ سے کوئی تعلق تھا۔

اگر تصور کریں کہ یہ اصلاحات ترتیب دے دی جاتی ہیں تو کیا ہماری بیوروکریسی میں یہ اہلیت موجود ہے کہ وہ ان اصلاحات پر عمل درآمد کو یقینی بنا سکے؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ پاکستان میں بیوروکریسی اور نظام کے معیار کے حوالے سے سنگین خدشات موجود ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان اصلاحات کا نفاذ آسان عمل نہیں ہوگا۔

اگر آپ پاکستان کے کسی بھی محکمے میں کی جانے والی اصلاحات کی تاریخ پر نظر ڈالیں گے تو معاملہ آپ کے سامنے واضح ہوجائے گا۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ گزشتہ 4 دہائیوں سے اصلاحات کے حوالے سے اہم شعبے رہے ہیں۔ کیا آج ہمارا ایف بی آر ان دیگر محکموں سے زیادہ اہل اور موثر ہے جہاں اصلاحات کو اتنی اہمیت نہیں دی گئی؟ کیا یہ اب یہ ادارہ بدعنوانی کا مرتکب نہیں ہے؟ حقیقت یہی ہے کہ ایف بی آر کی حالت دیگر محکموں سے مختلف نہیں ہے۔

1980ء کی دہائی کے اختتام اور 1990ء کی دہائی کے اوائل میں بھارت کی معیشت بھی سنگین مسائل کا سامنا کررہی تھی۔ بھارت کو اس وقت جن مسائل کا سامنا تھا ان میں بیشتر کا آج ہم خود شکار ہیں۔ بھارت نے اصلاحات کے ذریعے انہیں حل کیا۔ لیکن اصلاحات سے قبل انہوں نے جو تیاریاں کیں وہ کافی متاثرکُن تھیں۔

بھارت نے بڑی اقتصادی اصلاحات سے پہلے شعبہ جات پر کام کیا، ایسے کرنے سے معیشت نے اصلاحات پر اپنا ردِعمل بھی تیزی سے دیا۔ ہم بھارت کی اس حکمتِ عملی سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔

پاکستان کے لیے آئندہ چند سال ہرگز آسان نہیں ہوں گے۔ قوی امکان یہی ہے کہ ہم متعلقہ اصلاحات لانے میں ناکام رہیں گے اور اقتصادی بحران کی لپیٹ میں رہیں گے۔ لیکن اگر ہم اصلاحات لانے کے حوالے سے سنجیدہ ہو بھی جاتے ہیں تب بھی ہمیں متعلقہ محکموں کے حوالے سے معلومات اور اصلاحات کے نفاذ کے لیے اہلیت کے فقدان کا سامنا کرنا ہوگا۔

تو مختصر یہ کہ اگر ہم یہ راستہ چننے کی کوشش بھی کرتے ہیں تب بھی حالات و واقعات ہمارے حق میں نہیں ہوں گے اور ہمارا امتحان جاری رہے گا۔


یہ مضمون 3 فروری 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

فیصل باری

لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں، اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] اور [email protected] ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024