دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کیلئے متحد ہونا ہوگا، وزیر اعظم
وزیراعظم شہباز شریف نے پشاور میں ایپکس کمیٹی کے اجلاس کے دوران کہا ہے کہ پشاور دہشت گردی اور سیکیورٹی میں غفلت کی تحقیقات ہونی چاہیے، دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے متحد ہونا ہوگا۔
پشاور میں ایپکس کمیٹی کے اجلاس کے آغاز پر وزیر اعظم نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 30 جنوری کو پشاور میں دہشت گردی کا ہولناک واقعہ پیش آیا جہاں ایک دہشت گرد چیک پوسٹ سے گزرتا ہوا پولیس لائنز میں داخل ہوا اور مسجد میں جاپہنچا اور سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد ایک اور اندوہناک واقعہ پیش آیا۔
انہوں نے کہا کہ اس واقعے کے بعد پوری قوم اشک بار ہے اور سوال کرتی ہے کہ چند سال قبل ختم کی گئی دہشت گردی کے بعد یہ واقعہ کیسے پیش آیا اور کیسے گزشتہ چند ہفتوں اور مہینوں میں صوبے میں دیگر اس کے واقعات رونما ہوئے۔
شہباز شریف نے کہا کہ اس واقعے کے حوالے سے جو بےبنیاد پروپیگنڈا کیا گیا وہ قابل مذمت ہے، یہ واقعہ اور اس حوالے سے سیکیورٹی میں غفلت کی تحقیقات ہونی چاہیے لیکن یہ کہنا کہ یہ ڈرون حملہ تھا یا بے جا الزامات کی بات کی گئی وہ غیر مناسب ہے۔
انہوں نے کہا کہ قوم اس وقت یہ سوچ رہی ہے کہ دہشت گردی کے ناسور پر کیسے قابو پایا جائے اور اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے، یہ وقت کی ضررورت ہے کہ تمام سیاسی قیادت اور مذہبی زعما اپنے تمام اختلافات بھلا کر مل بیٹھیں، اس کی ذمے داری لیں، اس کا مقابلہ کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں دہشت گردی کا بہادری اور عظیم قربانیوں کے ساتھ مقابلہ کیا گیا، اب بھی اس کا مقابلہ کیا جائے گا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ ہمیں حق بات کرنی ہوگی، تنقید برائے تنقید سے بچنا ہوگا، اگر یہ واقعہ خدانخواستہ کسی سازش کا حصہ تھا تو ماضی قریب میں پیش آنے والے واقعات کس سازش کا حصہ تھے، یہ دہشت گردی کا ایک واقعہ تھا اور اسے کچلنے کے لیے ہمیں بغیر وقت ضائع کیے اقدامات کرنے ہوں گے۔
’آئی ایم ایف وفد وزیر خزانہ اور ان کی ٹیم کو بہت ٹف ٹائم دے رہا ہے‘
ان کا کہنا تھا اس طرح کے واقعات کے بعد یہ طعنہ ملتا تھا کہ وفاق ہمارا ساتھ نہیں دے رہا، این ایف سی ایوارڈ کے تحت ملنے والے اربوں روپے کہاں گئے، پنجاب میں سی ٹی ڈی، فرانزک لیب، سیف سٹی بنائی گئی تو یہاں کیوں نہیں بنائی گئی۔
انہوں نے کہا کہ وسائل فراہم کرنا وفاق کی ذمے داری ہے، وسائل کے حوالے سے صورتحال آپ کے سامنے ہے، آئی ایم ایف کا وفد اسلام آباد میں بیٹھا ہے اور وزیر خزانہ اور ان کی ٹیم کو بہت ٹف ٹائم دے رہا ہے، اس وقت میں تفصیلات میں جانا نہیں چاہتا، صرف اتنا کہوں گا کہ اس وقت ہمارا معاشی چیلنج ناقابل تصور ہے، ہمیں آئی ایم ایف کی جو شرائط پوری کرنی ہیں، وہ تصور سے بالاتر ہیں لیکن مجبور ہیں کہ ہمیں وہ تمام شرائط لازمی پوری کرنی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان معاشی مشکلات کے باجود بھی وفاقی صوبوں کے ساتھ ہے اور ان کی ہر طرح سے مدد کریں گے، سی ٹی ڈی کو مضبوط کریں گے، چاروں صوبے پاکستان وفاق کی اکائیاں ہیں، ہمیں ساتھ مل کر چلنا ہے۔
’417 ارب روپے کہاں گئے، اس کا احتساب ہونا چاہیے‘
شہباز شریف نے کہا کہ لیکن میرا سوال یہ ہے کہ خیبر پختونخواہ کو دیے گئے 417 ارب روپے کہاں گئے، اس کا احتساب ہونا چاہیے، اس کا آڈٹ ہونا چاہیے، یہ پیسہ سیکیورٹی کی مد میں تھا، اگر اس پیسے کا آدھا بھی اس مد میں خرچ کیا جاتا تو صوبے کے عوام سکون کی نیند سوتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ دہشت کا کوئی مذہب، دین، ایمان اور ملک نہیں ہوتا، پاکستان اس مقصد کے لیے نہیں بنایا گیا تھا، اس وقت ہمیں اپنے اختلافات کو ایک سائیڈ پر رکھ کر سیاسی قیادت کو آگے بڑھنا ہوگا اور آئینی ادارے جب تک مل کر کام نہیں کریں گے تو بات آگے نہیں بڑھے گی۔
وزیر اعظم نے کہا کہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں متحد ہوکر آگے بڑھنا ہوگا، ہمیں اتحاد قائم کرنا ہوگا، بغیر قول و فعل میں یکسانیت کے ہم اس کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے، ہمیں پوری قوم کو اکٹھا کرنا ہوگا، اگر اس وقت ہم نے یہ نہ کیا تو پھر تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ اس مقصد کے لیے کل میں نے تمام جماعتوں کے رہنماؤں کو اس ایپکس کمیٹی اجلاس کے لیے بھی اور منگل کے روز ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس کے لیے بھی دعوت دی ہے تاکہ قومی اہمیت کے معاملے پر اتفاق رائے قائم کیا جائے۔
’قوم جاننا چاہتی ہے دہشت گردوں کو عجلت میں کون یہاں لایا‘
ان کا کہنا تھا جن دہشت گردوں نے ظلم و ستم کا بازار گرم کیا، انہیں تو دوبارہ آباد کرنے کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں اور ملک کی تقدیر کو بہتر کرنے کے لیے آپ ہاتھ ملانے کے لیے تیار نہیں ہیں تو اس طرح کا دہرا معیار نہیں چلے گا، میں نے ملک و قوم کے مفاد میں یہ قدم اٹھایا اور امید ہے کہ آگے سے نفی میں جواب نہیں آئے گا۔
شہباز شریف نے کہا کہ خیبر پختونخوا کے کسی علاقے میں دہشت گردوں کا قبضہ نہیں ہے، وہ ادھر ادھر جاتے ہیں، پھرتے ہیں لیکن ان کا ایک انچ پر قبضہ نہیں ہے، لیکن پھر بھی سوال ہے کہ وہ یہاں کس طرح سے آئے، کون ان کو یہاں لے کر آیا، کس طرح سے عجلت میں انہیں حصہ بنایا گیا، یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب قوم جاننا چاہتی ہے۔
اس موقع پر وزیراعظم نے پشاور دھماکے میں شہید ہونے والوں کے لیے فی کس 20 لاکھ روپے اور زخمیوں کے لیے فی کس 5 لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا۔
اس سے قبل وزیراعظم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری بیان کے مطابق اجلاس میں 30 جنوری کو پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں ہونے والے دہشت گردی کے ہولناک واقعے کے محرکات پر غور کیا جائے گا۔
ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں دہشت گردی کے خاتمے، سی ٹی ڈی اور پولیس کی اپ گریڈیشن کے اقدامات پر بھی تبادلہ خیال ہوگا۔
اجلاس میں وفاقی وزرا، چاروں صوبوں، گلگت بلتستان کے وزرائے اعلیٰ، آزاد جموں و کشمیر کے وزیر اعظم، سیکیورٹی فورسز، پولیس کے حکام اور اعلیٰ سرکاری افسران شریک ہیں۔
قبل ازیں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ایپکس کمیٹی کا اہم اجلاس آج پشاور میں ہوگا۔
مریم اورنگزیب نے بتایا تھا کہ اجلاس گورنر ہاؤس خیبرپختونخوا میں ہوگا۔
اپنے ٹوئٹ میں وفاقی وزیر مریم اورنگزیب نے کہا تھا کہ اجلاس میں تمام اسٹیک ہولڈرز، پولیس، رینجرز اور حساس اداروں کے اعلی افسران شریک ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اجلاس میں انسداد دہشت گردی کے اقدامات زیر غور آئیں گے۔
عمران خان کا حکومت پر دہشت گردی پھیلنے کی اجازت دینے کا الزام
دوسری جانب سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے موجودہ حکومت پر دہشت گردی پھیلنے کا الزام عائد کردیا۔
سماجی رابطے کے ویب سائٹ پر جاری بیان میں سابق وزیراعظم نے کہا کہ میں سازش اور ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے قوم پر مسلط کردہ اس امپورٹڈ سرکار کو ہرگز تسلیم نہیں کرتا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 10 مہینے میں اس حکومت کے ہاتھوں معیشت کی تباہی، ننگی فسطائیت کے ذریعے جمہوریت کے قتل، قانون کی حکمرانی اور بنیادی حقوق کے خاتمے اور دہشت گردی کو اپنی ناک تلے پھیلنے کی اجازت دیے جانے پر نگاہ ڈالتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ شہباز شریف اتنا بے شرم کیسے ہوسکتا ہے!