منیر اکرم کی ’لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کو پشتون ثقافت قرار‘ دینے کے بیان پر وضاحت
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم کی جانب سے افغان طالبان کی طرف سے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کو پشتون ثقافت قرار دینے کے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وہ چھوٹی اقلیت کے ’مخصوص اور عجیب نقطہ نظر‘ کا حوالہ دے رہے تھے جس کے نتیجے میں خواتین پر پابندیاں عائد کی گئیں۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق منیر اکرم نے متنازع بیان نیویارک میں منعقدہ اقوام متحدہ کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے دیا تھا۔
انہوں نے اقوام متحدہ کے اجلاس کے دوران کہا تھا کہ طالبان حکومت کی جانب سے خواتین کی تعلیم پر پابندیوں کا تعلق مذہبی نقطہ نظر سے زیادہ پشتون ثقافت سے ہے، جس کے تحت خواتین کو گھروں میں بیٹھنے پر مجبور کیا جاتا ہے، یہ افغانستان کی ایک مخصوص طرح کی ثقافتی حقیقت ہے جو سیکڑوں سال سے نہیں بدلی۔
سابق سینیٹر افراسیاب خٹک نے منیر اکرم کے اس بیان کو پشتونوں کی توہین قرار دیتے ہوئے سوال کیا کہ ’کیا پاکستان طالبان کی نمائندگی کرتا ہے؟‘
سابق افغان حکومت میں نائب وزیر دفاع شاہ محمود میاخیل نے کہا منیر اکرم ’نسلی کارڈ‘ استعمال کررہے ہیں جو ’شرمناک‘ ہے۔
سری لنکا میں افغان سفیر اشرف حیدری نے الزام لگایا کہ افغانستان میں صنفی امتیازکے لیے طالبان کے انتہا پسند نظریے کو منیر اکرم جان بوجھ کر ذمہ دار نہیں ٹھہرا رہے جسے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اب پاکستان میں بھی نافذ کرنا چاہتی ہے۔
ڈان کے سوال پر منیر اکرم نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ان کے ریمارکس کی وجہ سے اگر کسی کے جذبات مجروح ہوئے یا (بیان کو) غلط سمجھا گیا تو انہیں اس بات کا افسوس ہے، منیر اکرم نے کہا کہ ان کا مقصد پشتون ثقافت کی بے عزتی یا بے توقیری کرنا نہیں جو کہ انتہائی ترقی پسند ہے اور پوری دنیا میں احترام کی مستحق ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ ’چھوٹی اقلیت‘ کے ’مخصوص اور عجیب نقطہ نظر‘ کا حوالہ دے رہے تھے جس کے نتیجے میں خواتین پر پابندیاں عائد کی گئیں۔
اسلام آباد میں وزارت خارجہ کے ترجمان نے صحافیوں کو بتایا کہ اسلام آباد نے سفیر منیر اکرم کے بیان اور ان کے نقطہ نظر کی وضاحت طلب کی ہے۔
ترجمان نے کہا کہ پاکستان وہ ملک ہے جہاں خواتین کو برابری کا درجہ دیا جاتا ہے اور اس حوالے سے پاکستان عالمی سطح پر کیے جانے والے معاہدوں اور کنونشنز کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔
وزارت خارجہ کے ترجمان نے مزید کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اسلام خواتین کو تعلیم سمیت برابری کے حقوق بھی دیتا ہے، ہم نے مؤقف اختیار کیا کہ افغانستان کی باصلاحیت خواتین کو آگے بڑھنے کا حق ہے اور انہیں اپنے خوابوں کی تکمیل سے محروم نہیں کرنا چاہیے۔’