بھارت: ’گینگ ریپ پر رپورٹنگ‘، بغیر ٹرائل کے قید صحافی صدیق کپن دو سال بعد رہا
بھارتی ریاست اتر پردیش میں گینگ ریپ کے واقعے کی رپورٹنگ کے لیے جانے والے صحافی صدیق کپن کو گرفتاری کے بعد دو سال تک بغیر ٹرائل کے قید میں رکھنے کے بعد منی لانڈرنگ کے ایک اور کیس میں ضمانت منظور ہونے کے بعد رہا کردیا گیا۔
غیر ملکی خبر ایجنسی ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں دو سال تک بغیر ٹرائل کے قید رہنے والے صحافی صدیق کپن کو منی لانڈرنگ کے مقدمے میں ضمانت منظور ہونے کے بعد رہا کردیا گیا ہے۔
صحافی صدیق کپن کو اکتوبر 2020 میں بھارتی ریاست اترپردیش میں ہونے والے ایک ہائی پروفائل ریپ کیس کی رپورٹنگ کے دوران متاثرہ خاندان کا مؤقف لینے کے لیے جاتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ صحافی صدیق کپن کو دو سال تک تحویل میں رکھا گیا لیکن ان کا ٹرائل نہیں چل رہا تھا، تاہم آج منی لانڈرنگ کے مقدمے میں ان کی ضمانت منظور کی گئی جس کے بعد انہیں جیل سے رہا کردیا گیا۔
صحافی صدیق کپن اور تین دیگر افراد پر بنیاد پرست مذہبی گروپ سے تعلق کا الزام عائد کیا گیا تھا اور آخرکار انہیں تشدد پر اکسانے کے مقدمے میں تحویل میں لیا گیا تھا۔
گرفتاری کے بعد صحافی صدیق کپن نے ان پر عائد تمام الزامات مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے صرف اپنے صحافتی فرائض کے پیش نظر ریاست اترپردیش کا سفر کیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق صحافی کی گزشتہ برس ستمبر میں ضمانت منطور کی گئی تھی مگر ان کے خلاف منی لانڈرنگ کا ایک اور مقدمہ درج ہونے کی وجہ سے انہیں جیل میں رکھا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ میں سخت قوانین کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھوں گا۔
صدیق کپن نے لکھنو شہر میں جیل سے رہائی کے بعد بھارتی نشریاتی ادارے ’این ڈی ٹی وی‘ کو بتایا کہ ’ضمانت منظور ہونے کے باوجود بھی انہوں نے مجھے جیل میں رکھا تھا‘۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ دو سال بہت مشکل تھے مگر مجھے کوئی خوف نہیں تھا‘۔
واضح رہے کہ 2014 میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) برسراقتدار آنے کے بعد سے رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز کی پریس کی آزادی کی درجہ بندی میں بھارت 180 ممالک میں سے 150 نمبر پر آ گیا ہے جہاں اس وقت تک مخلتف جیلوں میں 9 صحافی قید ہیں۔
بھارت میں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی پالیسیوں پر تنقید کرنے کی وجہ سے اکثر صحافیوں کو یا تو جیل کا سامنا کرنا پڑتا ہے یا پھر انہیں بی جے پی کے حامیوں کی طرف سے سوشل میڈیا پر سخت تنقید اور تضحیک برداشت کرنا پڑتی ہے۔
واضح رہے کہ 42 سالہ صدیق کپن کو 5 اکتوبر 2020 کو گرفتار کرکے دہشت گردی کا مقدمہ درج کیا گیا تھا جب وہ ترپردیش میں گینگ ریپ کا نشانہ بننے والی دلت برادری سے تعلق رکھنے والی لڑکی کے اہل خانہ سے انٹرویو اور احتجاج کی رپورٹنگ کی کوشش میں ہاتھرس جا رہے تھے، جہاں حکام نے جنسی زیادتی کے بعد زخموں کے تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑنے والی نوجوان خاتون کی آخری رسومات ادا کی تھیں۔