• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

معیشت ایسی چیز نہیں ہے جسے راتوں رات بدل دیں، کئی سال لگ جائیں گے، مریم نواز

شائع February 2, 2023
مریم نواز نے کہا آج اگر ہم عوام کو ریلیف دینا بھی چاہیں تو نہیں دے سکتے کیونکہ آئی ایم ایف نے ہمارے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں — فوٹو: ڈان نیوز
مریم نواز نے کہا آج اگر ہم عوام کو ریلیف دینا بھی چاہیں تو نہیں دے سکتے کیونکہ آئی ایم ایف نے ہمارے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں — فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سینئر نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ معیشت ایسی چیز نہیں ہے جسے آپ راتوں رات بدل کر رکھ دیں، معیشت کو جو دھچکا لگا ہے اور جو خودکش حملہ اس فتنہ خان نے کیا ہے اس سے معیشت کو باہر آتے ہوئے بھی کئی سال لگ جائیں گے۔

بہاولپور میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے مریم نواز کا کہنا تھا کہ بہاولپور میں تمام عہدیداروں اور کارکنوں کو شکریہ ادا کرتی ہوں کہ انہوں نے مجھے کل سے آج تک جس عزت سے نوازا۔

انہوں نے کہا کہ میری تمام ایم این ایز اور ایم پی ایز سے بھی ملاقات ہوئی، مجھے ان سے سیر حاصل گفتگو کرنے کا موقع ملا، ان کی قابل قدر رائے ملی، میرا پہلا تنظیمی دورہ ہے، جو فیصلہ کیا تھا کہ ایک ایک ڈویژن میں جاکر رات گزاریں گے اور اگلے دن ملاقاتیں کریں گے، اس کا بہت فائدہ ہوا ہے۔

مریم نواز نے کہا کہ ہم نے جو عوامی رابطہ مہم شروع کی ہے، مجھے لگا ہے کہ یہ مسلم لیگ (ن) کی عوامی مقبولیت کو چار چاند لگائے گی۔

’آنے والے چند ہفتوں میں نواز شریف واپس آئیں گے‘

ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف آنے کی تیاری کر رہے ہیں، وہ بہت جلد واپس آئیں گے، اتنا ضرور بتا سکتی ہوں کہ آنے والے چند ہفتوں میں نواز شریف واپس آئیں گے۔

کیا مسلم لیگ (ن) اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ لے کر انتخابات میں جانا چاہتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں مریم نواز نے کہا کہ (ن) لیگ حقائق کی بنیاد پر بات کرتی ہے، (ن) لیگ گھڑی چور کی طرح نہیں ہے، جب انگلی پکڑنی تھی، بیساکھی کا سہارا چاہیے تھا، وزیر اعظم کے آفس تک پہنچنا تھا تو اسٹیبلشمنٹ کے تعریفوں کے ڈھیر لگا دیے اور جب کرسی گئی تو ان کی اسٹیبلشمنٹ کے لیے محبت بھی چلی گئی، ہمارا کسی سے کوئی ذاتی جھگڑا نہیں ہے، ایشوز کی بنیاد پر بات ہوتی ہے، وہ اب بھی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ جو بھی بات کرنا پڑے گی وہ کریں گے لیکن ہمارا بیانیہ حقائق پر مبنی ہے، جس کا قوم نے پچھلے 4، 5 سال نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا۔

صحافیوں اور عمران ریاض کی گرفتاری سے متعلق سوال کے جواب میں مسلم لیگ (ن) کی سینئر نائب صدر نے کہا کہ میں صحافیوں کے ساتھ آج بھی کھڑی ہوں، مجھے قلم کی طاقت کا اندازہ ہے، میں آج بھی آزادی اظہار رائے کو سپورٹ کرتی ہوں لیکن کچھ افراد جنہوں نے صحافیوں کا لبادہ اوڑھا ہوا ہے، ان کا ایک جماعت کے ساتھ مکمل الحاق ہے، کچھ چینلز جس میں ’اے آر وائی‘ سرفہرست ہے، اگر وہ جھوٹ بولنے والی مشین کے طور پر سامنے آئے گا تو پھر اس کے بارے میں بات تو ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ جن لوگوں کا کام صحافت ہے، ان کو کوئی انگلی بھی نہیں لگا سکتا، اگر لگائے گا تو میں ان کے ساتھ کھڑی ہوں۔

پشاور میں دہشت گردی سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ دو دن پہلے خیبرپختونخوا میں جو واقعہ ہوا ہے، یہ بڑا افسوسناک واقعہ ہے، خیبرپختونخوا میں اس گھڑی چور کی حکومت 10 سال رہی، آج بھی وہاں پر انسداد دہشت گردی کا دفتر کرائے کی بلڈنگ میں ہے، سب سے زیادہ فنڈز ملنے کے باوجود وہاں پر پولیس کے پاس کوئی ایسا ایکوپمنٹ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ فرانزک لیب پنجاب کی استعمال کرنا پڑتی ہے، ان کی 10 سال وہاں پر حکومت رہی، یہاں سے ہی پتا چلتا ہے کہ حکومت کو کن مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔

’حکومت کو بوجھ ڈالتے ہوئے مساوات قائم کرنا چاہیے‘

مریم نواز کا کہنا تھا کہ پھر جس طرح سے دہشت گردوں کے لیے سرحدیں کھولیں، ان کو اپنا دوست قرار دیا، جن کو آپ اپنے ہاتھ، آنکھیں اور کان کہتے تھے، ان کو آپ نے اپنے لیے استعمال کیا، اگر وہ فنڈز ریاست کے لیے استعمال ہوئے ہوتے تو وہ وہاں پر آج یہ حالت نہ ہوتی، اس کمزوری کو ماننا پڑے گا، یہ غلطی تھی، ابھی اتنا بڑا سانحہ ہوا ہے، میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آنے والے وقت میں ملک اور عوام کو محفوظ رکھے۔

سیاستدان، بیوروکریٹس، جج، اسٹیبلشمنٹ اور بڑے اعلیٰ افسران کے لیے مشکل فیصلے نہیں لیے جارہے، سارے مشکل فیصلے عوام کے لیے ہی کیوں کیے جارہے ہیں؟ ان کی مراعات کب واپس ہوں گی؟

اس سوال کے جواب میں مریم نواز نے کہا کہ بالکل، آگے بڑھ کر قربانی دینی چاہیے، آپ نے جن طبقات کا نام لیا، اللہ نے ان کو نوازا ہوا ہے تو ان کو رضاکارانہ طور پر بھی آگے بڑھ کر پہل کرنی چاہیے اور حکومت کو بھی چاہیے کہ مساوات قائم کرتے ہوئے جو بوجھ آج کل غریب عوام کے اوپر ہے، ان کو بھی اس کا پورا شیئر اٹھانا چاہیے۔

الیکشنز سے ڈرنے اور انتخابات میں تاخیر سے متعلق سوال کے جواب میں مسلم لیگ (ن) کی سینئر نائب صدر نے کہا کہ جو ڈر رہے ہیں، ان کا ڈر آپ کو نظر آرہا ہے، ہم عوام میں موجود ہیں، لوگوں کو پتا ہے کہ اگر آج مہنگائی ہے تو کس کی وجہ سے ہے، چار سال گھڑی چور کی حکومت تھی تو گھڑی چور سمیت ان میں سے ایک بھی بندہ عوام میں جانے کے قابل نہیں تھا لیکن میں جب سے لندن سے آئی ہوں، عوام کے ساتھ ہوں اس کا مطلب ہے کہ لوگوں کو پتا ہے کہ آئی ایم ایف کا معاہدہ کون کر کے گیا ہے جس کی وجہ سے مہنگائی ہوئی ہے۔

’معیشت کو بہتر کرنے میں کئی سال لگ جائیں گے‘

مسلم لیگ (ن) کی سینئر نائب صدر نے کہا کہ معیشت ایسی چیز نہیں ہے جسے آپ راتوں رات بدل کر رکھ دیں، معیشت کو جو دھچکا لگا ہے اور جو خودکش حملہ اس فتنہ خان نے کیا ہے اس سے معیشت کو باہر آتے ہوئے بھی کئی سال لگ جائیں گے، آج اگر ہم عوام کو ریلیف دینا بھی چاہیں تو نہیں دے سکتے کیونکہ آئی ایم ایف نے ہمارے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں، آئی ایم ایف کا معاہدہ ہم نے نہیں عمران خان نے کیا تھا اور اگر یہ کہا جائے کہ پاکستانی معیشت کو گروی رکھ کر آگیا تھا تو یہ غلط بات نہیں ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ آج عمران خان جو معاہدہ کر کے گیا ہے اگر اس کی پاسداری کرتے ہیں تو پاکستان پر مشکل آتی ہے اور اگر اس کی پاسداری نہیں کرتے تو پاکستان پر مشکل آتی ہے اور خدانخواستہ پاکستان ڈیفالٹ کرسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں تو کہا جاتا ہے کہ یہ آٹھ مہینے کی حکومت ہے لیکن ہماری حکومت 28 نومبر کے بعد شروع ہوئی ہے کیونکہ اس سے پہلے لاڈلے کے سرپرست موجود تھے۔

’شاہد خاقان بڑے بھائی ہیں، ان کی سرپرستی میں کام کرنا چاہتی ہوں‘

ایک سوال کے جواب میں مریم نواز نے کہا کہ شاہد خاقان عباسی کے حوالے سے جو شکوک و شبہات تھے وہ انہوں نے کل آکر دور کر دیے، وہ نہ صرف نواز شریف کے دیرینہ ساتھی ہیں بلکہ ہمارا خاندانوں کا ساتھ سالوں سے چل رہا ہے، وہ میرے بڑے بھائی ہیں، میں ان کی سرپرستی میں کام کرنا چاہتی ہوں اور جتنے بھی پارٹی کے عہدیدار ہیں ان کے ساتھ مل کر مجھے کام کرنا ہے۔

اس سے قبل وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے سانحہ پشاور سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ یہ صوبائی معاملہ ہے، پنجاب میں اگر لاہور کو سیف سٹی بنایا گیا تو اس وقت کی صوبائی حکومت اور شہباز شریف نے بنایا، اگر سی ٹی ڈی پنجاب میں مضبوط یا اسٹیبلش ہوئی تو وہ بھی اسی وقت ہوئی، جہاں تک ذمہ داری کا سوال ہے تو پچھلے 10 سال سے وہاں (خیبر پختونخوا) میں کس کی حکومت ہے؟

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024