• KHI: Fajr 5:25am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 6:23am
  • ISB: Fajr 5:07am Sunrise 6:31am
  • KHI: Fajr 5:25am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 6:23am
  • ISB: Fajr 5:07am Sunrise 6:31am

قتل کی منصوبہ بندی کا الزام، شکر ہے آصف زرداری نے ہتک عزت کا مقدمہ کیا، عمران خان

شائع February 1, 2023
چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے ویڈیو لنک کے ذریعے قوم سے خطاب کیا— فوٹو: ڈان نیوز
چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے ویڈیو لنک کے ذریعے قوم سے خطاب کیا— فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین پر عائد کیے قتل کی منصوبہ بندی کے الزامات کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہےکہ شکر ہے کہ آصف زرداری نے مجھ پر ہتک عزت کا مقدمہ کیا ہے، میری اطلاعات اتنی پکی ہیں کہ مجھے تفصیلات تک معلوم ہیں۔

عمران خان نے ویڈیو لنک کے ذریعے عوام سے خطاب کے دوران پشاور میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعے کو دردناک قرار دیا اور حکومت کے خلاف اپنے الزامات بھی دہرائے۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے سابق صدر آصف زرداری کی جانب سے ہتک عزت کے مقدمے کو قیامت کی نشانی قرار دیا اور انہیں مخاطب کرکے کہا کہ میں تو شکر ادا کررہا ہوں کہ آصف زرداری آپ عدالت میں آئیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے جب یہ مقدمہ عدالت میں جائے گا تو آپ سے سوال کیا جائے گا کہ کیا آپ کی کوئی ساکھ ہے جو خراب ہوئی ہے، ساری دنیا کے آپ کو مضمون دکھائیں گے کہ آپ کا نام مسٹر ٹین پرسنٹ رکھا گیا تھا، یہ ہر چیز پر پیسے بناتے تھے، قرآن پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ اب تک آپ کتنے لوگ مروا چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں تو شکر کر رہا ہوں کہ آپ مجھ پر ہرجانہ کریں۔

عمران خان نے کہا کہ جب میں کہہ رہا تھا کہ مجھے قتل کیا جائے گا اور ایک دینی انتہا پسند کے نام پر مجھے قتل کریں گے تو کیا کسی نے تحریری معاہدہ کیا تھا، مجھے کہیں سے پتا چل ہی گیا تھا، یہ اس سے پہلے بھی ایک منصوبہ بنا چکے تھے، یہ پلان بی بنا تھا، مجھے تحریری طور پر تو کسی نے نہیں کہا تھا بلکہ اطلاع ملی تھی اور وہ ساری اطلاعات ثابت ہو رہی ہیں۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ میری اطلاعات اتنی پکی ہیں کہ مجھے تفصیلات تک معلوم ہیں، یہ دہشت گردوں کا اسپلنٹر گروپ ہے، مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ آپ کے ساتھ کون سی ایجنسی کے افسران ملے ہوئے ہیں جنہوں نے یہ منصوبہ بنایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پہلے پلان اے بنا جن کے نام میں نے ٹیپ پر ریکارڈ کر کے باہر بھجوا دیے ہیں، پھر پلان بی بنا جن میں تین لوگ ملوث تھے اور انہوں نے تیسرا منصوبہ بنایا ہوا ہے جو دہشت گردی کے نام پر ہوگا اور یہ کہا جائے گا کہ دہشت گرد نے خودکش حملہ کیا اور عمران خان کو مار دیا۔

’پشاور سانحے کو کو سیاسی بنایا جا رہا ہے‘

عمران خان نے کہا کہ پشاور میں بہت دردناک اور تکلیف دہ سانحہ ہوا ہے اور دہشت گردی پر پھر سے بات چیت شروع ہو گئی ہے، دہشت گردی میں آہستہ آہستہ کمی آئی تھی اور اب پھر اس میں اضافہ شروع ہو گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی خیبر پختونخوا پولیس نے بہت قربانیاں دیں اور جب ہم 2013 میں حکومت میں آئے تھے تو اس وقت تک صوبے کے 700 سے زائد پولیس اہلکار شہید ہو چکے تھے، افسوس کی بات یہ ہے کہ اتنا بڑا سانحہ ہوا ہے لیکن اس کو سیاسی بنایا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم پچھلے 20سال سے ایک عذاب بھگت رہے ہیں، ہم نے افغان جہاد لڑا اور یہ سارا افغان جہاد قبائلی علاقوں سے لڑا گیا لیکن اس میں القاعدہ جیسے گروپس کے مجاہدین بھی جاتے تھے لیکن قبائلی علاقے کے لوگوں نے اس میں بڑے پیمانے پر شرکت کی۔

پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ 2001 کے بعد جب جنرل مشرف نے فیصلہ کیا کہ ہم امریکا کی جنگ میں شامل ہوں گے تو پراپیگنڈا سے کسی کی جنگ کو اپنی جنگ بنایا گیا، میں تب سے کہتا رہا کہ یہ ہماری جنگ نہیں تھی لیکن ہم نے شرکت بھی کی اور مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمیں اس سے ڈالرز بھی آئے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب 2001 میں امریکا افغانستان آنے کا فیصلہ کرتا ہے تو جن قبائلیوں نے سوویت یونین کے خلاف جانوں کی قربانیاں دیں ہم نے ان سے کہا کہ اگر اب امریکیوں کے خلاف آپ لڑے تو یہ دہشت گردی ہو گی، سب کو پتا تھا کہ اس کا ردعمل آئے گا۔

انہوں نے کہا کہ 1948 میں قائد اعظم نے قبائلی علاقوں سے فوج واپس بھیجی اور اس کے بعد پہلی مرتبہ 2003 میں ہم نے پہلی بار قبائلی علاقوں میں فوج بھیجی۔

عمران خان نے کہا کہ جب ہم نے قبائلی علاقے میں فوج بھیجی تو وہاں سے مسئلے شروع ہوئے، جو لوگ افغانستان میں امریکی مداخلت کو غلط سمجھتے تھے انہیں بہت غصہ آیا، سارے پشتون علاقے کے لوگوں نے اسی ناراضی کے سبب 2002 کے الیکشن میں ایم ایم اے کو ووٹ دیا کیونکہ ایم ایم اے واحد پارٹی تھی جو یہ کہہ رہی تھی کہ امریکا نے غلط کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم جیسے جیسے امریکا کی جنگ میں پڑتے رہے اس کا ردعمل دہشت گردی کی شکل میں آتا رہا، آہستہ آہستہ پاکستان میں دہشت گردی اور شدت پسندی بڑھتی گئی اور مجھے افسوس کہنا پڑتا ہے کہ جب میری طرح کے لوگ کہتے تھے کہ یہ غلط ہو رہا ہے تو مجھے طالبان خان کہا گیا، میں بار بار کہتا تھا کہ کوئی فوجی حل نہیں ہے کیونکہ افغانستان والے کسی باہر والے کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔

ان کا کہنا تھا کہ 2006 سے ڈرون حملے شروع ہو گئے جو آہستہ آہستہ بڑھتے گئے، ڈرون حملوں میں زیادہ تر معصوم لوگ مارے جاتے تھے اور وہ بدلہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز اور پولیس سے بدلہ لیتے تھے۔

’ہم نے صوبائی پولیس میں اصلاحات کیں‘

عمران خان نے کہا کہ 2013 میں ہماری حکومت آئی تو پولیس کے حوصلے پست تھے، ہم نے اصلاحات کیں اور مرحوم آئی جی درانی کو لے کر گئے، ہم نے پولیس کمانڈوز کی ٹریننگ کرائی جس کی بدولت پختونخوا کی پولیس پیروں پر کھڑی ہوئی اور ہم نے اس جنگ سے کامیابی سے واپسی کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ 2018 میں ہماری حکومت آئی تو ہم نے امریکا اور افغان طالبان کے درمیان بات چیت میں سہولت کار کا کردار ادا کیا، ہم نے کوشش کی کیونکہ ہمارا مفاد یہ تھا کہ وہاں امن ہو گا تو پاکستان میں اس کا فائدہ ہو گا، اس وقت پچھلی افغان حکومت پاکستان کے بجائے بھارت کی حامی تھی اور وہ ہماری کوئی مدد نہیں کرتی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ 2021 کی گرمیوں میں امریکا نے انخلا کی تاریخ کا اعلان کیا تو مجھے خوف آنا شروع ہو گیا کہ افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہو جائے گی، ہماری خفیہ ایجنسیوں نے اطلاع دی کہ افغانستان کی 3لاکھ فوج ہے اور 60 سے 70 ہزار طالبان ہیں لہٰذا وہاں خانہ جنگی شروع ہو جائے گی تو ہمیں خدشہ تھا کہ اس کے اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہوں گے۔

’جب جنرل باجوہ کے ساتھ ایک پیج پر تھے تو ملک کا فائدہ ہوا‘

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ میرا جنرل باجوہ سے کوئی اختلافات نہیں تھے، ہم ایک پیج پر تھے، جب پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور منتخب حکومت ایک پیج پر تھی تو اس ملک کا بڑا فائدہ ہوا، کافی اچھے اچھے کام کیے لیکن پہلا اختلاف یہ ہوا کہ ایکسٹینشن کے بعد جنرل باجوہ نے بار بار ہمیں کہا کہ ان کو این آر او دے دو اور احتساب سے پیچھے ہٹ جاؤ لیکن میں نے اس سے انکار کر دیا۔

انہوں نے کہا کہ جنرل باجوہ سے دوسرا اختلاف جنرل فیض پر ہوا، میں یہ چاہتا تھا کہ افغانستان کی وجہ سے سردیوں تک جنرل فیض کو رکھا جائے کیونکہ سب سے مشکل وقت میں سب سے سینئر فرد کو انٹیلی جنس کا سربراہ ہونا چاہیے کیونکہ مجھے اس وقت سے دہشت گردی کا خوف تھا۔

’افغانستان اور ہم پر اللہ نے کرم کیا کہ افغان فوج نے ہتھیار ڈال دیے‘

ان کا کہنا تھا کہ اللہ نے ہم پر اور افغانستان پر کرم کیا کہ افغانستان کی تربیت یافتہ فوج نے ہتھیار ڈال دیے اور صدر اشرف غنی ملک سے چلے گئے، ایک دم طالبان کی حکومت آ گئی اور خطہ خانہ جنگی سے بچ گیا، اگر خدانخواستہ خانہ جنگی ہوتی سب سے زیادہ نقصان پاکستان کا ہونا تھا۔

عمران خان نے کہا کہ امریکا اور طالبان میں دوحہ میں ہونے والے مذاکرات میں ہمارا بڑا کردار تھا اور انخلا میں بھی پاکستان نے سب سے بڑا کردار ادا کیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے افغانستان کے موضوع پر او آئی سی کے وزرا کی کانفرنس کرائی اور دنیا کو بتایا کہ پاکستان میں دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے افغانستان میں استحکام ضروری ہے لیکن اس کے بعد بدقسمتی سے رجیم چینج کے نتیجے میں ہماری حکومت کو ہٹا دیا گیا۔

’ٹی ٹی پی جنگجووں کو دوبارہ بسانے کا اختیار سیکیورٹی فورسز اور قبائلی اراکین اسمبلی کو دیا‘

ان کا کہنا تھا کہ جب ہماری حکومت ہٹائی گئی تو میں نے جنرل باجوہ کے ساتھ بیٹھ کر گفتگو کی، طالبان کی افغان حکومت نے کہا تھا کہ ہم 30 سے 40 ہزار طالبان فائٹرز اور ان کے خاندانوں کو بھیجنے لگے ہیں تو نور الحق قادری سمیت اس علاقے سے باخبر ہمارے تین لوگوں نے اس حوالے سے خدشات کا اظہار کیا تو ہم نے فیصلہ کیا کہ قبائلی علاقوں کے اراکین قومی اسمبلی اور سیکیورٹی فورسز فیصلہ کریں گی کہ ان کو دوبارہ کیسے بسانا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب سوات کے مقامی افراد نے طالبان کی واپسی اور ممکنہ دہشت گردی کے خلاف مظاہرہ کیا تو میں نے خیبر پختونخوا کے اپنے اراکین اسمبلی کے ساتھ ملاقات کی جس میں ان سب نے دہشت گردی میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا لیکن اس حکومت کو پتا ہی نہیں تھا کہ کرنا کیا ہے اور نہ ہی ان کی وہاں کوئی توجہ تھی لہٰذا یہ مسئلہ بڑھنا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ابھی تو لوگوں نے قبروں میں اپنے لوگوں کو دفن بھی نہیں کیا اور تجزیہ بھی نہیں کیا گیا کہ کیا ہوا ہے تو گورنر خیبر پختونخوا خط لکھ دیتا ہے کہ الیکشن ملتوی کردیے جائیں کیونکہ صوبے کی صورت حال ٹھیک نہیں ہے، کیا صورت حال جانچے بغیر یہ کہنا ٹھیک ہے کہ الیکشن ملتوی کریں۔

’اپنے اقتدار کا حساب دے سکتے ہیں‘

انہوں نے کہا کہ میں آج اس حکومت اور اس کے ذمہ داروں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم اس کا حساب تو دے سکتے ہیں جب ہم اقتدار میں تھے لیکن جب ہم اقتدار میں ہی نہیں ہیں تو اس کے بارے میں بات کیوں کریں، سوال یہ ہے کہ یہ ہمارے دور میں یہ کیوں نہیں ہوا لیکن آج یہ کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے اپنے اقتدار میں ایسا کیا تو دہشت گردی بڑھ گئی۔

پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ مجھے پہلے سے پتا تھا کہ یہ نااہل ہیں، 17سال میں سب سے بہترین معاشی کارکردگی کے باوجود ہماری حکومت تبدیل کی گئی، 30 سال انہوں نے حکومت کی اور آج ملک کی یہ حالت ان کی وجہ سے ہے، جو ملک کو تباہی کی طرف لے کر جائے وہ ملک کو ٹھیک کیسے کر سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کہتے ہیں کہ ہماری تیاری نہیں تھی، ملک کے حالت بہت برے تھے تو ہمیں رہنے دیتے، آپ نے سازش کیوں کی تھی، ہم ذمہ دار تھے، جو آپ نے آ کر ملک کا بیڑا غرق کر دیا ہے ہم اس کے ذمہ دار کیسے ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے جانے کے بعد ڈالر کے مقابلے میں روپیہ کی قدر 90 روپے گرا ہے، کیا اس کے ہم ذمہ دار ہیں، اس مہنگائی کے ہر شعبے پر اثر پڑ رہا ہے، آج لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی بن چکی ہے، تنخواہ دار لوگ سوچتے ہیں کہ ان کی تنخواہ میں کیسے گزارا ہو گا، ابھی پوری مہنگائی آئی نہیں ہے اور ابھی پیٹرول ڈیزل کی قیمتیں مزید بڑھنی ہیں اور چیزیں مزید مہنگی ہوں گی۔

عمران خان نے کہا کہ گزشتہ 9 ماہ میں ہمارے قرضوں میں 10ہزار ارب کا اضافہ ہوا ہے اور انہوں نے بس ایک کارنامہ انجام دیا ہے کہ اپنے کرپشن کے کیسز ختم کروا دیے ہیں، عوام پس رہے ہیں اور 1100 ارب کے اپنے کرپشن کے کیسز ختم کرا دیے ہیں جس کو ہم این آر او ٹو کہتے ہیں۔

’موجودہ حکومت کا جلدی انتخابات کرانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے‘

انہوں نے دعویٰ کیا کہ موجودہ حکومت کا جلدی الیکشن کرانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، انہوں نے الیکشن ملتوی کرانے کے لیے اتنی جلدی پشاور سانحے کا استعمال کیا ہے کہ ان کا اس سال الیکشن کرانے کا بھی ارادہ نہیں ہے اور یہ آگے لے کر جانا چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کی پوری کوشش یہ ہے کہ یہ تب الیکشن کرائیں جب یہ سمجھیں کہ تحریک انصاف ختم ہو چکی ہے اور ہم نے اسی لیے آئین کو سامنے رکھتے ہوئے جلد الیکشن کرانے کے لیے اپنی حکومت سے نکلنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن اب یہ الیکشن سے بھاگ رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس صورت حال سے نکلنے کا ایک ہی حل ہے کہ جلد از جلد آزادانہ اور شفاف انتخابات کرائے جائیں، عوام کے مینڈیٹ سے حکومت آئے، جو حکومت عوام کے فیصلوں سے آئے گی وہ بڑے فیصلے کرے گی اور ان بڑے فیصلوں سے یہ ملک بحران سے نکلے گا۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024