• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

اداروں کےخلاف اکسانے کا الزام: فواد چوہدری ضمانت کے بعد جیل سے رہا

شائع February 1, 2023
فواد چوہدری کو جیل سے رہا کردیا گیا—فوٹو: ڈان نیوز
فواد چوہدری کو جیل سے رہا کردیا گیا—فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما فواد چوہدری کو ضمانت منظور ہونے کے بعد اڈیالہ جیل سے رہا کردیا گیا۔

اڈیالہ جیل سے رہائی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ میں نے جو باتیں کی ہیں میں ان پر قائم ہوں اور ایک لفظ سے بھی پیچھے نہیں ہٹا۔

فواد چوہدری نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے ایف آئی آر اور غداری کے مقدمے پر چیف الیکشن کمشنر کو کہتا ہوں کہ سیکریٹری الیکشن کمیشن کو کمرے میں بلائیں اور دو چھتر ماریں۔

ان کا کہنا تھا کہ ادارے قابل احترام ہیں اور ہم جہلم والوں سے زیادہ کس کو پتا ہے کہ فوج کی کیا قربانی ہے اور آپ ہمیں کہہ رہے ہیں کہ ہم غدار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میری نظر میں پاکستان بہت بڑے بحران کا شکار ہے جس کا واحد حل الیکشن کروا کر اقتدار منتخب حکومت کے حوالے کرنا ہے اور اس کے علاوہ کوئی حل نہیں ہے۔

فواد چوہدری نے کہا کہ پشاور میں جو کچھ ہوا اس پر ہر پاکستانی کی آنکھ اشک بار ہے، اس معاملے پر ہم 6 ماہ سے بات کر رہے ہیں کہ افغانستان کے ساتھ کوئی پالیسی نہیں ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں دہشت گردی ہوگی لیکن کوئی توجہ نہیں دی گئی اور تمام توجہ ایک طرف ہے کہ کسی طرح عمران خان کو مائنس کیا جائے۔

فواد چوہدری کی ضمانت منظور

قبل ازیں اسلام آباد کی سیشن عدالت نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما فواد چوہدری کی درخواست ضمانت منظور کی تھی۔

25 جنوری کو فواد چوہدری کو اسلام آباد پولیس نے لاہور سے گرفتار کیا تھا، 2 روز قبل اسلام آباد کی مقامی عدالت نے ان کا مزید 2 روزہ جسمانی ریمانڈ دینے کی پراسیکیوشن کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا۔

فواد چوہدری کی درخواست ضمانت بعد از گرفتاری پر ایڈیشنل سیشن جج فیضان حیدر گیلانی نے سماعت کی۔

فواد چوہدری کے وکیل بابر اعوان، فیصل چوہدری اور علی بخاری عدالت کے روبرو پیش ہوئے، تفتیشی افسر کی جانب سے کیس ریکارڈ عدالت میں پیش کیا گیا۔

دوران سماعت پراسیکیوٹر عدالت کے روبرو پیش ہوئے، وکیل بابر اعوان نے درخواستِ ضمانت پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سیکریٹری الیکشن کمیشن عمر حمید مدعی مقدمہ ہے، ریٹائرڈ بیوروکریٹ ہیں، الیکشن کمیشن کے سیکریٹری انفرادی طور پر خود ریاست نہیں ہے۔

انہوں نے مؤقف اپنایا کہ میرا سوال ہے کیا الیکشن کمیشن حکومت ہے؟ کسی کو کہنا کہ تمہارے خلاف کارروائی کروں گا کا مطلب دھمکی دینا نہیں، بغاوت کی دفعہ انفرادی طور پر کچھ نہیں، بغاوت کی دفعہ کو سیاسی رنگ دیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس دوران الیکشن کمیشن کے وکیل سعد حسن بھی عدالت میں پیش ہوئے، لگانے کو تو مقدمے میں قتل کی دفعہ بھی لگا سکتے تھے، کیس ثابت ہونے پر ان دفعات پر 10 سے 15 سال کی سزا ہو سکتی ہے، ان دفعات پر کم سے کم 3 سال سزا دی جاسکتی ہے، فواد چوہدری کو جھوٹے کیس میں نامزد کیا گیا۔

بابر اعوان نے استدلال کیا کہ فواد چوہدری پر لگی دفعات پر عدالتوں کے کم فیصلے موجود ہیں، آج کل جو کیسز بن رہے ہیں اس کے بعد چند عدالتوں کے فیصلے آئے ہیں، اس موقع پر جج کی جانب سے وکیل بابر اعوان کو مقدمہ پڑھنے کی ہدایت کی گئی۔

جج نے ریمارکس دیے کہ فواد چوہدری نے مقدمے کے ایک مخصوص حصے تک تنقید کی، جج نے استفسار کیا کہ فواد چوہدری کی جانب سےکہنا کہ گھروں سے چھوڑ کر آنے کا کیا مطلب ہے؟ فواد چوہدری سینیئر وکیل اور پارلیمنٹیرین ہیں۔

بابر اعوان نے کہا کہ ماضی میں خاتون کو ٹریکٹر اور ٹرالی کہہ کر بھی مخاطب کیا گیا، عدالت نے استفسار کیا کہ خاندانوں کے حوالے سے بات کرنے کا کیا مطلب ہے، پاکستان میں شرح خواندگی آپ کو پتا ہے کیا ہے اور سیاسی شخصیت کا ایسی بات کرنے کا کیا مطلب ہے۔

ایڈیشل سیشن جج فیضان حیدر گیلانی نے کہا کہ اس سے قبل ہماری ایک ساتھی کے بارے میں بھی کہا گیا، اتنا آگے جانے کا کیا مطلب ہے، بعد میں اس میں معافی مانگی گئی، بابر اعوان نے کہا کہ اس معاملے کو بھی میں نے جاکر حل کروایا تھا۔

پراسیکیوٹر نے کہا کہ آزادی اظہار رائے کا مطلب کسی شخصیت کا کباڑا کرنا نہیں ہوتا، الیکشن کمیشن کے ملازم کو منشی بنا دیا گیا، جج نے استفسار کیا کہ کیا کسی وکیل نے منشی کہنے پر اعتراض اٹھایا؟ منشی کے لفظ کو غلط کیوں سمجھا جارہا ہے؟

پراسیکیوٹر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے ملازم کو ٹارگٹ کرکے منشی لفظ استعمال کیا گیا، جج نے کہا کہ منشی کے لفظ کو غلط کیوں سمجھا جارہا ہے؟

پراسیکیوٹر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے ملازم کو ٹارگیٹ کرکے منشی لفظ استعمال کیا گیا، پولیس کی جانب سے ڈاکومنٹری شواہد اکٹھے کیے گئے، عدالت نے ریمارکس دیے کہ اپنے بیان سے تو فواد چوہدری انکاری نہیں، پراسیکیوٹر نے کہا کہ فواد چوہدری نے پروگرام میں کہا اس ملک میں جو بغاوت ہے وہ تو فرض ہے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ملک میں استحکام نہیں، اس دوران عوام کو اکسانا ٹھیک نہیں، صرف الیکشن کمیشن کو ٹارگٹ نہیں کیا جارہا، رجیم چینج کے بعد افواجِ پاکستان اور سیاسی شخصیات کو ٹارگیٹ کیا جارہا ہے۔

جج نے ریمارکس دیے کہ قانون نوآبادیاتی دور میں بنایا گیا تھا، کچھ دفعات واپس نوآبادیاتی دور میں لے جاتی ہیں، پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 124 اُن دفعات میں سے ایک ہے، اگر ایک اثر و رسوخ رکھنے والا شخص عوام کو اکسائے تو صورتحال مختلف ہوگی۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے دلائل مکمل کرتے ہوئے فواد چوہدری کی درخواستِ ضمانت کی مخالفت کی جب کہ وکیل بابر اعوان نے جواب الجواب میں کہا کہ تفتیش کے دوران پراسیکیوشن نے اعظم سواتی کے ساتھ جو کیا وہ سامنے ہے، اخلاقیات کی بات کرتے ہیں، اعظم سواتی کو اس کی اہلیہ کے ساتھ ویڈیو بھیجی۔

انہوں نے کہا کہ پراسیکیوشن اب نیا مدعی ڈھونڈ رہی ہے تاکہ کسی نئے ادارے کی توہین ہو، جس عدالت نے الیکشن کروانے کی ہدایت کی، اسی انتخابات سے الیکشن کمیشن بھاگا، لوگ ووٹ ڈالنے کے لیے قطاروں میں لگے تھے اور چیف الیکشن کمشنر بھاگ گئے۔

بابر اعوان نے استدلال کیا کہ اگر بیان پر جانا ہے تو پراسیکیوشن کو تو 3 سال چاہیے۔

فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے فواد چوہدری کی درخواستِ ضمانت منظور کرلی۔

پی ٹی آئی رہنما کی درخواست ضمانت 20 ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض منظور کی گئی۔

حکومت کی کوشش ہے جو لوگ عوام کے ساتھ کھڑے ہیں انہیں ڈرایا جائے، اسد عمر

فوٹو:ڈان نیوز
فوٹو:ڈان نیوز

عدالتی فیصلے کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اسد عمر نے اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہ فواد چوہدری پر سچ بولنے کا مقدمہ تھا لیکن ان کے لیے بری خبر یہ ہے کہ آپ اگر سمجھ رہے تھے کہ فواد چوہدری کی آواز بند کروگے تو اب فواد چوہدری باہر آرہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پرویز الہٰی کے گھر پر چھاپے مارے جا رہے ہیں اور شیخ رشید پر دباؤ ڈالا جارہا ہے، یہ سب ایک ہی کڑی ہے اور کوشش ہے کہ ان لوگوں کو ڈرایا دھمکایا جائے جو عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔

اسد عمر نے کہا کہ فواد چوہدری پر سچ بولنے کا مقدمہ تھا لیکن ان کے لیے بری خبر یہ ہے کہ آپ اگر سمجھ رہے تھے کہ فواد چوہدری کی آواز بند کروگے تو اب فواد چوہدری باہر آرہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کی زبردستی آواز بند کرانے کی کوشش کی گئی، لوگوں کو اٹھایا گیا ان پر تشدد کیا گیا اور اب براہ راست آئین کو چلینج کیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جس طریقے سے آئین کے اندر واضح چیز لکھی ہوئی ہے کہ 90 دن کے اندر الیکشن کرانے ہیں لیکن موجودہ حکومت اس سے بھاگنے کی کوشش کر رہی ہے۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ وجہ جو بھی ہو لیکن آئین سے انحرافی کی جارہی ہے، مجھے بڑی خوشی ہے کہ لاہور ہائی کورٹ میں میری درخواست پر عدالت نے واضح طور پر لکھ دیا ہے کہ الیکشن 90 دن کے اندر کرانے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نہ صرف عدالت نے یہ ہدایات دی ہیں کہ 90 دن کے اندر الیکشن کرائیں بلکہ یہ بھی کہا کہ اگر یہ آئینی ذمہ داری پوری نہیں کی گئی تو یہ آئین سے انحراف ہوگا اور آرٹیکل 5 کے تحت آئین پر عمل کرنے کی ذمہ داری ہے ان پر بھی مقدمہ درج کیا جائے۔

اسد عمر نے کہا کہ جیت پاکستان کے آئین کی ہوگی، یہ جتنی کوشش کریں اب ملک الیکشن کی طرف جارہا ہے۔

فواد چوہدری کی گرفتاری

25 جنوری کو فواد چوہدری کو اسلام آباد پولیس نے لاہور سے گرفتار کیا تھا، اسلام آباد پولیس کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا تھا کہ ’فواد چوہدری نے آئینی اداروں کے خلاف شرانگیزی پیدا کرنے اور لوگوں کے جذبات مشتعل کرنے کی کوشش کی ہے، مقدمے پر قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جارہی ہے‘۔

ٹوئٹر پر جاری بیان میں اسلام آباد پولیس کا کہنا تھا کہ سیکریٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان کی درخواست پر تھانہ کوہسار میں درج کیا گیا ہے، فواد چوہدری نے چیف الیکشن کمشنر اور اراکین کو ان کے فرائض منصبی سے روکنے کے لیے ڈرایا دھمکایا۔

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی گرفتاری کے مبینہ حکومتی منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے پی ٹی آئی کارکنان عمران خان کی زمان پارک رہائش گاہ کے باہر جمع ہوئے تھے جس کے چند گھنٹوں بعد پی ٹی آئی کی جانب سے فواد چوہدری کی گرفتاری کا دعویٰ سامنے آیا تھا۔

تحریک انصاف کی جانب سے فواد چوہدری کی بازیابی کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی لیکن لاہور ہائی کورٹ نے ان کی بازیابی کے لیے دائر درخواست خارج کردی تھی۔

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے درخواست گزار سے کہا تھا کہ اگر آپ مقدمے کا اخراج چاہتے ہیں تو اسلام آباد ہائی کورٹ فورم ہے، اگر یہ مقدمہ پنجاب میں ہوتا تو ہم دیکھ سکتے تھے کہ یہ مقدمہ درج بھی ہو سکتا تھا یا نہیں۔

ایف آئی آر

پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری کے خلاف سیکریٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان عمر حمید کی شکایت پر اسلام آباد کے تھانہ کوہسار میں ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔

ایف آئی آر میں فواد چوہدری کے ٹی وی انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ ’انہوں نے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن کی حیثیت ایک منشی کی ہوگئی ہے، نگران حکومت میں جو لوگ شامل کیے جا رہے ہیں، سزا ہونے تک ان کا پیچھا کریں گے اور حکومت میں شامل لوگوں کو گھر تک چھوڑ کر آئیں گے‘۔

ایف آئی آر کی دستیاب کاپی کے مطابق ’فواد چوہدری نے الیکشن کمیشن کے ارکان اور ان کے خاندان والوں کو بھی ڈرایا دھمکایا‘۔

فواد چوہدری کے خلاف مذکورہ ایف آئی آر پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 153-اے (گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا)، 506 (مجرمانہ دھمکیاں)، 505 (عوامی فساد کو ہوا دینے والا بیان) اور 124-اے (بغاوت) کے تحت درج کی گئی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024