توشہ خانہ کیس: عمران خان پر فردِ جرم عائد کرنے کا فیصلہ
اسلام آباد کی مقامی عدالت نے سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس میں فردِ جرم عائد کرنے کے لیے 7 فروری کی تاریخ مقرر کردی۔
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں اسلام آباد کے ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے توشہ خانہ ریفرنس میں عمران خان کے خلاف فوجداری کارروائی کے کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے آغاز پر عدالت نے پی ٹی آئی کے وکیل سید علی بخاری سے استفسار کیا کہ عمران خان کی طرف سے وکالت نامہ کدھر ہے ؟
الیکشن کمیشن کی جانب سے وکیل سعد حسن نے کہا کہ وکالت نامہ اس وقت تک نہیں آسکتا جب تک عمران خان خود نہ آئیں۔
عمران خان کے وکیل نہ کہا کہ ہم نے گزشتہ سماعت پر عمران خان کا میڈیکل سرٹیفکیٹ پیش کیا تھا ، اس پر عدالت نے کہا کہ آج وکالت نامہ بھی جمع کرادیں۔
الیکشن کمیش کے وکیل نے کہا کہ جب تک مچلکے نہیں آ جاتے تب تک یہ وکالت نامہ نہیں دے سکتے۔
اس دوران الیکشن کمیشن اور پی ٹی آئی کے وکلا کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی، علی بخاری نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ مجھے ڈائریکٹ نا کریں، کورٹ سے بات کریں۔
دریں اثنا الیکشن کمیشن کے وکیل کی جانب سے عدالت سے عمران خان کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کی استدعا کی گئی۔
بعدازاں عدالت نے عمران خان پر فرد جرم عائد کرنے کے لیے 7 فروری کی تاریخ مقرر کر دی۔
ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے سابق وزیراعظم کو 20 ہزار روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے اور اگلی سماعت پر ذاتی طور پر حاضری یقینی بنانے کی ہدایت بھی کی۔
بعدازاں عمران خان کی جانب سے آئندہ سماعت پر حاضری یقینی بنانے کیلئے 20 ہزار روپے کے مچلکے جمع کرادیے گئے۔
واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ سنانے کے بعد کے ان کے خلاف فوجداری کارروائی کا ریفرنس عدالت کو بھیجا تھا۔
گزشتہ سماعت پر عدالت نے الیکشن کمیشن کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
توشہ خانہ ریفرنس
واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے 21 اکتوبر کو عمران خان کے خلاف دائر کردہ توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں نااہل قرار دے دیا تھا۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے متفقہ فیصلہ سنایا تاہم فیصلہ سناتے وقت 4 ارکان موجود تھے کیونکہ رکن پنجاب بابر حسن بھروانہ طبیعت کی خرابی کے باعث کمیشن کا حصہ نہیں تھے۔
فیصلہ سناتے ہوئے کہا گیا تھا کہ عمران خان کو جھوٹا بیان جمع کرانے پر آرٹیکل 63 (ون) (پی) کے تحت نااہل قرار دیا گیا ہے، جہاں اس آرٹیکل کے مطابق وہ رکن فی الوقت نافذ العمل کسی قانون کے تحت مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) یا کسی صوبائی اسمبلی کا رکن منتخب کیے جانے یا چنے جانے کے لیے اہل نہیں ہوگا۔
الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں عمران خان کو عوامی نمائندگی کے لیے نااہل قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ عمران خان نے اپنے مالی اثاثوں سے متعلق حقائق چھپائے اور حقیقت پر پردہ ڈالنے کے لیے جھوٹا بیان جمع کرایا، جھوٹ بولنے پر عمران خان عوامی نمائندگی کے اہل نہیں رہے۔
الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں عمران خان کے خلاف فوجداری کارروائی کرنے کی بھی سفارش کی تھی۔
الیکشن کمیشن کے فیصلے میں کہا گیا کہ عمران خان آرٹیکل 63 (ون) (پی) کے تحت نااہل ہیں، سابق وزیراعظم نے جھوٹا بیان اور ڈیکلیئریشن جمع کروائی، الیکشن ایکٹ کے سیکشن 167 اور 173 کے تحت کرپٹ پریکٹس کے مرتکب ہوئے اور توشہ خانہ سے حاصل تحائف اثاثوں میں ڈیکلیئر نہ کرکے دانستہ طور پر حقائق چھپائے۔
الیکشن کمیشن نے عمران خان کو آئین پاکستان کے آرٹیکل 63 کی شق ’ایک‘ کی ذیلی شق ’پی‘ کے تحت نااہل کیا جبکہ آئین کے مذکورہ آرٹیکل کے تحت ان کی نااہلی کی مدت موجودہ اسمبلی کے اختتام تک برقرار رہے گی۔
یوں فیصلے کے تحت عمران خان کو قومی اسمبلی سے ڈی سیٹ کردیا گیا اور ان کی نشست خالی قرار دے کر الیکشن کمیشن ضمنی انتخاب کروائے گا۔