• KHI: Asr 4:15pm Maghrib 5:51pm
  • LHR: Asr 3:29pm Maghrib 5:06pm
  • ISB: Asr 3:28pm Maghrib 5:06pm
  • KHI: Asr 4:15pm Maghrib 5:51pm
  • LHR: Asr 3:29pm Maghrib 5:06pm
  • ISB: Asr 3:28pm Maghrib 5:06pm

اداروں کے خلاف اکسانے کا الزام: فواد چوہدری کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا

شائع January 30, 2023
ایڈوکیٹ فیصل چوہدری نے کہا کہ ہمیں نہیں بتایا جا رہا کہ فواد چوہدری کو کہاں رکھا جا رہا ہے—فائل فوٹو: ڈان نیوز
ایڈوکیٹ فیصل چوہدری نے کہا کہ ہمیں نہیں بتایا جا رہا کہ فواد چوہدری کو کہاں رکھا جا رہا ہے—فائل فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد کی مقامی عدالت نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی ائی) کے رہنما فواد چوہدری کا مزید 2 روزہ جسمانی ریمانڈ دینے کی پروسیکیوشن کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔

28 جنوری کو جوڈیشل مجسٹریٹ نے پولیس کی درخواست پر پی ٹی آئی رہنما کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا تھا جب کہ اس سے ایک روز قبل عدالت نے پولیس کی جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے فواد چوہدری کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا۔

جوڈیشل مجسٹریٹ وقاص احمدراجا کی عدالت میں وکیل فیصل چوہدری کے وکیل پیش ہوئے، جج نے عدالتی عملے سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ فواد چوہدری کو لا رہےہیں یا نہیں لا رہے؟ عدالتی عملے نے کہا کہ میں تفتیشی افسر سے فوادچوہدری کی پیشی کے حوالے سے پوچھ کر بتاتا ہوں۔

جج نے ریمارکس دیے کہ پروسیکیوٹر صاحب جلدی کریں، فوادچوہدری کولانےکا وقت ہوگیاہے ، عدالت کا وقت چھوڑیں، آپ نے فوادچودھری کو 3 بجے پیش کرنےکا کہا تھا۔

فواد چوہدری کے وکیل بابراعوان نے پروسیکوٹر سے مکالمہ کیا کہ توہین عدالت کی درخواست دیتےہیں، 3 سے اوپر کا وقت ہونے والاہے، جج نے پروسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ ڈی ایس پی لیگل کہاں ہیں؟ جو پہلے عدالت آئے تھے، بابراعوان نے کہا کہ ڈی ایس پی لیگل کدھر ہیں؟ اس کمرے تک تو قانون کی بالادستی رہنےدیں۔

جج نے کہا کہ پروسیکیوٹر سے مکالمہ کیا کہ جی عدنان صاحب؟ کمرہ عدالت سے باہر جائیں اور فوادچوہدری کو لے کر آئیں، اگر ایسے کریں گے تو مجھے ایس ایس پی اور آئی جی کو نوٹس جاری کرنا پڑےگا، یہ کوئی طریقہ نہیں ہے کہ 3 بجے ملزم کو پیش کرنے کا کہنے کے بعد ایساکیا جائے۔

اس دوران تفتیشی افسر محمد علی کمرہ عدالت پہنچے، پولیس فواد چوہدری کو لے کر سیشن کورٹ پہنچ گئی، فیصل چوہدری نے فواد چوہدری کی ہتھکڑی کھولنے کی استدعا کی۔

پروسیکیوشن کی جانب سے فواد چوہدری کے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ کل فوادچودہدری کو اسلام آباد سے لاہور لے کر گئے، جج نے استفسار کیا کہ فوٹوگرامیڑک ٹیسٹ کی فوادچوہدری کے کیس میں کیا اہمیت ہے؟ پروسیکوٹر نے کہا کہ فوٹوگرامیڑک ٹیسٹ کا مقصد اصلی انسان کی پہچان کرنا ہوتاہے، فواد چودھری کا موبائل لیپ ٹاپ اور دیگر ڈیوائسز برآمد کرنی ہیں۔

دوران سماعت الیکشن کمیشن کے وکیل نے فوادچوہدری کے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا نہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے صرف فواد چودھری کے فوٹوگرامیڑک ٹیسٹ کروانا تھا جو ہو چکا۔

بابراعوان نے کہا کہ فوادچوہدری نے اپنے بیان کا اقرار کیا، فوادچوہدری کے کیس کو پروسیکیوشن نے مزاق بنا لیاہے، فوادچوہدری اپنے بیان پر ڈٹے ہوئے ہیں، پروسیکیوشن معلوم نہیں کس کو خوش کرنا چاہتی ہے، معلوم نہیں کون سا لیپ ٹاپ پروسیکیوشن برآمد کرنا چاہتی ہے۔

فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے پروسیکیوشن کی مزید جسمانی ریمانڈ دینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے فواد چوہدری کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا حکم دے دیا۔

قبل ازیں آج اسلام آباد کچہری کے اوقات کار کا آغاز ہونے کے کچھ دیر قبل جوڈیشل مجسٹریٹ وقاص احمدراجا کمرہ عدالت میں پہنچے، پی ٹی آئی رہنما خرم شہزاد اور سینیٹر وسیم شہزاد، فواد چوہدری کے وکیل بابراعوان بھی اسلام آباد کچہری پہنچے۔

فواد چوہدری کے وکیل بابراعوان نے جوڈیشل مجسٹریٹ وقاص احمد راجا سے درخواست کی تھی کہ کیس کی سماعت اگر کچھ جلدی کردیں، جس پر جج نے حکم دیا کہ فوادچوہدری کیس کے لیے ساڑھے 11 کا وقت رکھ لیتےہیں۔

جس کے بعد عدالت نے حکم دیا تھا کہ فوادچوہدری کو کچہری میں ساڑھے 11 بجے پیش کیاجائے۔

بعد ازاں جب کیس کی سماعت ہوئی تو جوڈیشل مجسٹریٹ نے کہا کہ پولیس کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ دبئی کے حاکم آ رہے ہیں، روڈز بلاک ہیں، جوڈیشل مجسٹریٹ نے بابر اعوان سے مکالمہ کیا کہ اس وجہ سے فواد چوہدری کو تاخیر سے پیش کیا جائے گا۔

جوڈیشل مجسٹریٹ نے کہا کہ فواد چوہدری کا تو شاید رات کو میڈیکل ہو چکا ہے، لیکن رپورٹ ابھی تک آئی نہیں، جج نے ریمارکس دیے کہ پروسیکیوشن کنفرم کرکے بتا دیں گے کہ کب پیش کرنا ہے، جج نے نیب کورٹ کو ہدایت کی کہ تفتیشی افسر سے رابطہ کرکے پوچھیں کہ فوادچوہدری کو کب عدالت میں پیش کرنا ہے۔

فواد چوہدری کے وکیل بابراعوان نے کہا کہ ساڑھے 12 بجے کے آس پاس کا وقت بتا دیں، وکیل علی بخاری نے کہا کہ اگر ایک بجے بھی پیش کرنا ہے تو بتا دیں لیکن ٹھیک وقت بتادیں، وکیل بابراعوان نے کہا کہ پروسیکیوشن کو ضمیر کا قیدی بنایاہواہے۔

وکیل بابراعوان نے استدعا کی کہ پروسیکیوشن فواد چوہدری کو وقت پر پیش کرکے ضمیر جگالیں، ان کا ضمیر تو چھٹی پر گیا ہوا ہے، جج نے ریمارکس دیے کہ عدالتی عملہ فوادچوہدری کو عدالت پیش کرنے کے حوالے سے پی ٹی آئی وکلا کو آگاہ کرےگا۔

جوڈیشل مجسٹریٹ وقاص احمدراجا کی عدالت میں ڈی ایس پی لیگل پیش ہوئے، انہوں نے کہا کہ فواد چوہدری کو عدالتی اوقات کے اندر ہی پیش کریں گے، جج نے استفسارکیا کہ کوئی ایک وقت بتا دیں تاکہ دیگر کیسز میں خلل نہ پیدا ہو، ڈی ایس پی لیگل نے کہا کہ فوادچوہدری کا فوٹوگرامیٹرک ٹیسٹ کروا لیاہے، میڈیکل کروانا ہے۔

عدالت نے ڈی ایس پی لیگل کو فوادچوہدری کو عدالت پیش کرنے کے حوالے سے وقت بتانے کی ہدایت کی جس پر ڈی ایس پی لیگل نے کہا کہ فوادچوہدری کو تین بجے عدالت پیش کریں گے جس کے بعد عدالت نے فواد چوہدری کیس کی سماعت میں وقفہ کردیا تھا۔

’ہمیں نہیں بتایا جا رہا کہ فواد چوہدری کو کہاں رکھا جا رہا ہے‘

فواد چوہدری کی اہلیہ حبا چوہدری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کا فواد چوہدری کے ساتھ کسی قسم کا کوئی رابطہ نہیں، انہیں نہیں معلوم کہ وہ کہاں ہیں؟

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی رہنما اسلام آباد کےکسی تھانے میں نہیں ہیں، ’میں اور میری بیٹیاں بہت پریشان ہیں، میری بچیوں پر ظلم نہ کریں، ان کی ان کے والد سے ملاقات کروائی جائے‘۔

حبا چوہدری نے اپنے بچیوں اور فواد چوہدری کی تصویر بھی ساتھ لائی تھیں، انہوں نے عدلیہ،وزیراعظم اور صدر مملکت دے درخواست کی فواد چوہدری کو رہا کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ 7 روز گزر چکے ہیں لیکن فواد چوہدری کا کچھ نہیں معلوم وہ کہاں ہیں،اسلام آباد پولیس میرے ساتھ تعاون کریں ،یہ کس طرح کا قانون ہے کہ عام شہری کو انصاف نہیں مل رہا؟

فواد چوہدری کے بھائی ایڈووکیٹ فیصل چوہدری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ابھی تک ہمیں نہیں بتایا جا رہا کہ فواد چوہدری کو کہاں رکھا جا رہا ہے۔

ابھی تک فواد چوہدری کو عدالت بھی پیش نہیں کیا گیا، اب ہم انتظار میں ہیں انہیں کب عدالت میں پیش کیا جائے ، ہم نے کل فواد چوہدری پر ممکنہ تشدد روکنے کی درخواست دائر کی۔

فیصل چوہدری نے کہا کہ ہمیں خدشہ ہے کہ حراست کے دوران فواد چوہدری پر تشدد نہ کیا گیا ہو ، ان کا طبی معائنہ کرانے کا بھی عدالت نے حکم دے رکھا ہے۔

فواد چوہدری کی گرفتاری

25 جنوری کو فواد چوہدری کو اسلام آباد پولیس نے لاہور سے گرفتار کیا تھا، اسلام آباد پولیس کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا تھا کہ ’فواد چوہدری نے آئینی اداروں کے خلاف شرانگیزی پیدا کرنے اور لوگوں کے جذبات مشتعل کرنے کی کوشش کی ہے، مقدمے پر قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جارہی ہے‘۔

ٹوئٹر پر جاری بیان میں اسلام آباد پولیس کا کہنا تھا کہ سیکریٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان کی درخواست پر تھانہ کوہسار میں درج کیا گیا ہے، فواد چوہدری نے چیف الیکشن کمشنر اور اراکین کو ان کے فرائض منصبی سے روکنے کے لیے ڈرایا دھمکایا۔

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی گرفتاری کے مبینہ حکومتی منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے پی ٹی آئی کارکنان عمران خان کی زمان پارک رہائش گاہ کے باہر جمع ہوئے تھے جس کے چند گھنٹوں بعد پی ٹی آئی کی جانب سے فواد چوہدری کی گرفتاری کا دعویٰ سامنے آیا تھا۔

تحریک انصاف کی جانب سے فواد چوہدری کی بازیابی کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی لیکن لاہور ہائی کورٹ نے ان کی بازیابی کے لیے دائر درخواست خارج کردی تھی۔

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے درخواست گزار سے کہا تھا کہ اگر آپ مقدمے کا اخراج چاہتے ہیں تو اسلام آباد ہائی کورٹ فورم ہے، اگر یہ مقدمہ پنجاب میں ہوتا تو ہم دیکھ سکتے تھے کہ یہ مقدمہ درج بھی ہو سکتا تھا یا نہیں۔

ایف آئی آر

پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری کے خلاف سیکریٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان عمر حمید کی شکایت پر اسلام آباد کے تھانہ کوہسار میں ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔

ایف آئی آر میں فواد چوہدری کے ٹی وی انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ ’انہوں نے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن کی حیثیت ایک منشی کی ہوگئی ہے، نگران حکومت میں جو لوگ شامل کیے جا رہے ہیں، سزا ہونے تک ان کا پیچھا کریں گے اور حکومت میں شامل لوگوں کو گھر تک چھوڑ کر آئیں گے‘۔

ایف آئی آر کی دستیاب کاپی کے مطابق ’فواد چوہدری نے الیکشن کمیشن کے ارکان اور ان کے خاندان والوں کو بھی ڈرایا دھمکایا‘۔

فواد چوہدری کے خلاف مذکورہ ایف آئی آر پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 153-اے (گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا)، 506 (مجرمانہ دھمکیاں)، 505 (عوامی فساد کو ہوا دینے والا بیان) اور 124-اے (بغاوت) کے تحت درج کی گئی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 26 دسمبر 2024
کارٹون : 25 دسمبر 2024