روپے کی قدر میں کمی سے مہنگائی کی نئی لہر آنے کا خدشہ
تاجر اور صنعتی رہنماؤں نے خبردار کیا ہے کہ ایک ہی روز میں روپے کی قدر میں 10.6 فیصد کمی کے نتیجے میں نہ صرف اشیا کی قیمتوں میں اضافے کی نئی لہر آئے گی بلکہ شرح سود میں اضافے کے نتیجے میں مہنگے قرضے سے صنعتی سرگرمیاں شدید متاثر ہوں گی۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق تاجروں اور صنعتی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ روپے کی قدر میں کمی سے درآمدی اشیا اور صنعتی خام مال کی لاگت میں اضافہ ہوگا اور مہنگائی سے متاثر عوام کی زندگی مزید بدحالی کی طرف چلی جائے گی۔
رواں ہفتے کے اوائل میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے شرح سود میں 100 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کر دیا تھا جس کے بعد شرح سود 17 فیصد کے ساتھ ملکی تاریخ کے 25 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھی تاکہ مہنگائی پر قابو پایا جاسکے لیکن روپے کی قدر میں کمی اسٹیٹ بینک کی کوششوں کو متاثر کر سکتی ہے۔
کورنگی ایسوسی ایشن برائے تجارت اور صنعت کے صدر فراز الرحمٰن نے خدشہ ظاہر کیا کہ مستقبل قریب میں پیٹرول کی قیمتیں 300 روپے فی لیٹر تک پہنچ سکتی ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ شرح سود میں اضافے کے بعد مہنگے قرضوں اور روپے کی قدر میں 10 فیصد کمی سے صنعتیں چلانا انتہائی مشکل ہوگیا ہے جس کے نتیجے میں صنعتیں بند ہوجائیں گی اور بے روزگاری میں اضافہ ہوگا۔
تاہم ان کا خیال ہے کہ زرمبادلہ پر پرائس کیپ ہٹانا آخری آپشن تھا جو سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمعٰیل کو پہلے ہی ہٹا دینا چاہیے تھی، اس سے انٹربینک اور اوپن مارکیٹ کے درمیان فرق تقریباً برابر ہوسکتا ہے۔
انہوں نے امید ظاہر کی زرمبادلہ کی شرح کے مسائل حل کرنے سے غیر ملکی ترسیلات اور آئی ایم ایف سمیت کثیر الجہتی قرض دہندگان سے ڈالر کی آمد کی صورتحال بہتر ہوسکتی ہے، اس کے علاوہ اگر سرمایہ کاروں کا اعتماد دوبارہ بحال ہوجاتا ہے تو غیرملکی براہ راست سرمایہ کاری بہتر ہوسکتی ہے۔
کراچی ہول سیلرز گروسرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین رؤف ابراہیم نے دعویٰ کیا کہ روپے کی قدر میں 10 فیصد کمی کے باعث گزشتہ روز ہول سیل کی دالوں کی قیمتوں میں 15 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جن افراد کی تنخواہیں مناسب ہیں، انہیں اپنے اخراجات میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے کیونکہ تمام درآمدی اشیائے خوراک اور مقامی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔
برآمدگی ادائیگیوں اور ترسیلات زر میں اضافہ کرنے کے لیے انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ کی شرح برابر رکھنے کا فیصلہ 4 ماہ قبل کردینا چاہیے تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں 34 سے 35 روپے کے مقابلے میں 4 سے 5 روپے کا فرق معقول ہے، جس سے منڈی میں ڈالر کی بلیک مارکیٹنگ کا رجحان بڑھا، امید ہے کہ یہ رجحان بھی ختم ہوجائے گا۔