بجلی کی اضافی پیداوار بریک ڈاؤن کی وجہ قرار
پاکستان کے پاور پلانٹس نے پیر کے روز ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا کی جس کے سبب وولٹیج میں اتار چڑھاؤ (فلکچوئیشن) ہوا اور اس وجہ سے بجلی کا نظام بیٹھ گیا اور 22 کروڑ افراد تاریکی میں ڈوب گئے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق اس بات کا انکشاف غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی جانب سے جائزہ لی گئی ایک حکومتی دستاویز میں ہوا۔
سرکاری دستاویز کے مطابق پیر کی صبح پاور گرڈ کی فریکوئنسی 50.75 ہرٹز تک بڑھنے سے بلیک آؤٹ شروع ہوا جس کی وجہ سے جنوب میں نصب ٹرانسمیشن لائنوں کے وولٹیج میں شدید فلکچوئیشن ہوئی۔
گرڈ آپریٹرز کوشش کرتے ہیں کہ گرڈ کی فریکوئنسی کو 50 ہٹز پر مستحکم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، 0.05 ہٹز سے زیادہ اتار چڑھاؤ کو عام طور پر غیر معمولی سمجھا جاتا ہے، نوٹ کے مطابق بریک ڈاؤں سے قبل ہی گرڈ کی فریکوئنسی 50.30 ہرٹز تھی۔
سرکاری نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) کے جنرل منیجر سجاد اختر نے منگل کے روز اپنے نوٹ میں لکھا کہ ٹرانسمیشن لائنوں کی فریکوئنسی فلکچوئیشن نے سسٹم کو ٹرپ کیا، سجاد اختر نے نوٹ میں لکھا کہ ٹرانسمیشن لائنیں ٹرپ کر گئیں جس کے نتیجے میں شمالی اور جنوبی نظام آئئسولیٹ ہوگیا۔
وزارت توانائی نےمعاملے پر رد عمل دینے کی درخواست کا جواب نہیں دیا، نوٹ میں اس بات کا ذکر نہیں کیا گیا کہ سپلائی ڈیمانڈ سے زیادہ کیوں ہوئی۔
نوٹ میں لکھا گیا کہ جب ٹرانسمیشن لائنیں ٹرپ ہونے کے باعث شمالی اور جنوبی گرڈ سسٹم سے کٹ گئے تو ملک بھر میں تقریباً 11.35 گیگا واٹ (جی ڈبلیو) کے پاور پلانٹس چل رہے تھے۔
تاہم ان لائنوں کے سسٹم سے کٹنے کے بعد شمالی گرڈ میں طلب ممکنہ طور پر سپلائی سے کہیں زیادہ ہو گئی ، کیونکہ زیادہ تر پاور جنریٹر جنوب میں واقع ہیں۔
رپورٹ کے مطابق جب جنوب میں موجود گیس سے چلنے والے یونٹس نے کام کرنا شروع کیا جس کے بعد ہائیڈرو پلانٹس کو مسلسل کام کرنے اور شمالی گرڈ میں بجلی کی بحالی کے عمل کو شروع ہونے میں تقریباً 10 گھنٹے لگے۔