• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am

اسحٰق ڈار کی آئی ایم ایف مخالف سوچ کی وجہ سے شدید نقصان پہنچا، مفتاح اسمٰعیل

شائع January 26, 2023
مفتاح اسٰعیل نے کہا کہ اسحٰق ڈار نے آئی ایم ایف کے کردار کو نظرانداز کیا جس سے پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچا — فائل فوٹو: اے پی پی
مفتاح اسٰعیل نے کہا کہ اسحٰق ڈار نے آئی ایم ایف کے کردار کو نظرانداز کیا جس سے پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچا — فائل فوٹو: اے پی پی

مسلم لیگ (ن) کے رہنما مفتاح اسمٰعیل نے کہا ہے کہ پاکستان کو اسحٰق ڈار کی آئی ایم ایف مخالف سوچ کی وجہ سے شدید نقصان پہنچا اور یہ سوچ ناکامی سے دوچار ہوئی۔

نجی چینل ’جیو نیوز‘ کے پروگرام ’جیو پاکستان‘ میں گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ ہمارے سب ماہرین جانتے تھے کہ یہ سوچ ناکامی سے دوچار ہوگی اور ہم نے اس کے نتائج دیکھ لیے۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ مفتاح اسمٰعیل نے اسحٰق ڈار کی وزیر خزانہ کے عہدے پر تقرر کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے پالیسیوں سے اختلاف کیا ہو، بلکہ وہ اس سے قبل بھی موجودہ وزیر خزانہ کو آڑے ہاتھوں لے چکے ہیں اور یہ دعویٰ بھی کر چکے ہیں کہ انہیں وزارت خزانہ کے منصب سے اسحٰق ڈار کی ایما پر ہٹایا گیا۔

اس سے قبل وہ اسحٰق ڈار پر میڈیا میں ان کے خلاف مہم چلانے کے الزامات بھی عائد کر چکے ہیں اور انہوں نے کہا تھا کہ اسحٰق ڈار میڈیا میں آکر کہتے تھے کہ وہ ڈالر کو نیچے لے آئیں گے اور اینکرز کو میرے خلاف پروگرام کرنے کے لیے کہتے تھے۔

آج پروگرام میں بات کرتے ہوئے مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ مجھے اپنے دفاع کا حق ہے اور میری اہلیت اور پالیسیوں پر جو سوالات اٹھائے گئے، میں ان کا جواب دینا ضروری سمجھتا ہوں اور میری پارٹی نے میرے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔

موجودہ معاشی بحران کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ اسحٰق ڈار نے آئی ایم ایف کے کردار کو نظر انداز کیا جس سے پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچا۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیر خزانہ کا منصب سنبھالنے کے بعد ڈار صاحب نے سوچا کہ وہ آئی ایم ایف کی مدد کے بغیر ہی معاملات ٹھیک کر لیں گے یا آئی ایم ایف کو ڈرا کر پاکستان کے مطالبات ماننے پر مجبور کر دیں گے کیونکہ وہ مسلسل آئی ایم ایف کی شرائط کی مخالفت کر رہے تھے، انہوں نے یہ کوشش کی جس کے نتیجے میں پاکستان کو بڑا نقصان بھگتنا پڑا۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے کہا کہ تاہم خوش آئند بات یہ ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف کی شراط پر رضامندی ظاہر کردی ہے جس سے معیشت کی بہتری کی راہ ہموار ہوئی ہے اور بہتری آنا شروع ہوگی۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ نہیں جانتے کہ ان کی جگہ اسحٰق ڈار کو وزیر خزانہ بنانے کی کیا وجہ تھی، لیکن میں ایک عرصے سے جانتا تھا کہ ڈار صاحب کو واپس آنا ہے، وہ میرے خلاف روز ہی ٹی وی پر پروگرام کرتے تھے اور پارٹی کے اندر گروپس میں مجھے نشانہ بنا رہے تھے تو مجھے پتا تھا کہ یہ کبھی نہ کبھی ہونا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے انہیں یہ منصب سونپا تھا اور وہ انہیں اس سے ہٹانے کا استحقاق رکھتے ہیں کیونکہ میں کہیں لکھوا کر تو نہیں لایا کہ میں ہی وزیر خزانہ رہوں گا۔

’انتخابات میں حصہ نہیں لوں گا‘

مفتاح اسمٰعیل نے ایک مرتبہ پھر اپنے پرانے مؤقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے مبینہ طور پر آئی ایم ایف معاہدے کی خلاف ورزی سے پاکستان کے ڈیفالٹ کا خطرہ کئی گنا بڑھ گیا تھا، لیکن مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے ان کی وزارت خزانہ کے دور میں ڈیفالٹ کے خطرے کو کم کرنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے۔

انہوں نے انتخابی سیاست میں حصہ نہ لینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ میں انتخابات میں حصہ نہیں لوں گا کیونکہ پاکستان کا مفاد میرے سیاسی کیریئر سے زیادہ اہم ہے۔

دیگر سیاسی رہنماؤں کے ہمراہ ایک نئے فورم کے قیام کے حوالے سے سوال پر سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ وہ ساتھی سیاستدانوں شاہد خاقان عباسی اور مصطفیٰ نواز کھوکھر کے ہمراہ ایک نئے فورم ’ایمرجنگ پاکستان‘ کے قیام پر گفتگو کر رہے تھے، کیونکہ ہم ایک ایسی میراث چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں جو مستقبل میں پاکستان کے لیے مددگار ثابت ہو۔

پی ٹی آئی کی جانب سے رابطہ کرنے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے پی ٹی آئی میں چند دوستوں سے اس معاملے پر بات کی ہے اور انہیں بھی اس فورم کا حصہ بنایا جائے گا۔

پاکستان کو صحت اور تعلیم سمیت دیگر مسائل کے فوری حل کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ اگر بھارت اور بنگلہ دیش جیسے تمام ممالک ہمیں پیچھے چھوڑ کر آگے نکل رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے گورننس کے ماڈل میں خرابی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان میں جمہوریت، پارلیمانی جمہوریت، صدارتی نظام اور آمریت کو آزما کر دیکھ چکے ہیں اور ہمیں یہ سمجھ آچکا ہے کہ پاکستان میں فیصلے اشرافیہ کا ایک چھوٹا سا گروپ کرتا ہے اور اس سوچ پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم تمام سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے چاہتے ہیں اور ہمارا ماننا ہے کہ ایک ایسا پریشر گروپ ہونا چاہیے جو حکومت کی کارکردگی بہتر بنانے میں اس کی مدد کر سکے۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024