بھارت نے پاکستان کو شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کی دعوت دی ہے، رپورٹس
بھارتی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ بھارت نے پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو کو شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس میں شرکت کی دعوت دی ہے جس سے ممکنہ طور پر دو جوہری حریف ممالک کے درمیان برف پگھلنے میں مدد ملے گی۔
شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس رواں برس مئی میں بھارتی شہر گووا میں ہوگا۔
بھارت کی جانب سے اس دعوت نامے سے قبل وزیر اعظم شہباز شریف نے بھارت کو مقبوضہ کشمیر سمیت تمام حل طلب مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ بات چیت کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایک ماہ قبل وزیر خارجہ بلاول بھٹو کی جانب سے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے اجلاس کے دوران بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو ’گجرات کا قصائی‘ کہنے پر ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے کارکنان نے احتجاج کیا تھا جبکہ بھارت نے بلاول بھٹو کے بیان کو ’غیر مہذب‘ قرار دیا تھا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق بلاول بھٹو کو شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں مدعو کرنے سے متعلق پاکستان اور بھارت کے وزرائے خارجہ نے فوری طور پر ردعمل نہیں دیا۔
بھارتی اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ کی رپورٹ کے مطابق بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کی جانب سے دعوت نامہ اسلام آباد میں قائم بھارتی ہائی کمیشن کو موصول ہوا جس میں کہا گیا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس 4 اور 5 کو ہوگا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرپاکستان دعوت نامہ قبول کرلیتا ہے تو بلاول بھٹو پہلے وزیر خارجہ ہوں گے جو 12 سال بعد بھارت کا دورہ کریں گے، اس سے قبل جولائی 2011 میں وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے بھارت کا دورہ کیا تھا۔
شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان، چین، بھارت، روس اور کرغزستان سمیت وسطیٰ ایشیا کے ممالک قازقستان، تاجکستان اور ازبکستان شامل ہیں، جن سے پاکستان نے حال میں تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی ہے۔
بھارتی اخبار کے مطابق بھارت کے اعلیٰ افسر نے کہا ہے کہ ’پڑوسی ممالک کے ساتھ پالیسی کو ترجیح‘ کو دیکھتے ہوئے بھارت چاہتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر ہوں، بھارت کا ہمیشہ یہ نقطہ رہا ہے کہ خوف اور تشدد کے ماحول کو ختم کرکے بھارت اور پاکستان کے درمیان تمام مسائل دوطرفہ اور امن کے ساتھ حل ہونے چاہئیں۔’
یاد رہے کہ پاکستان اور بھارت 1947 میں برطانوی راج سے آزادی کے بعد سے 3 جنگیں لڑچکے ہیں۔
دونوں ممالک کے درمیان 2019 میں اس وقت ایک بار پھر تنازعات میں اضافہ ہوا تھا جب بھارت نے یکطرفہ طورپر مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی تھی، جس اقدام کو وزیر اعظم شہباز شریف حال ہی میں کھلے عام انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔
اس کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان سرکاری سطح پر مذاکرات معطل ہوگئے تھے تاہم دونوں ممالک کے درمیان مذکرات لیے بیک ڈور سفارت کاری کے ذریعے بحال کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔