ڈالر کے اخراج پر پابندی، ملٹی نیشنل کمپنیوں کو منافع باہر بھیجنے میں رکاوٹ درپیش
پاکستان میں کام کرنے والی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو حالیہ سہ ماہیوں میں ڈالر کے اخراج پر پابندی کی وجہ سے اپنا منافع باہر بھجوانے میں رکاوٹ کا سامنا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (او آئی سی سی آئی) کے سیکریٹری جنرل محمد عبدالعلیم نے کہا کہ پاکستان سے ملٹی نیشنل کمپنیوں کے بیرون ملک ہیڈ کوارٹرز کو منافع بھیجے جانے کا عمل 23-2022 کے آغاز سے رکا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’شعبے اور حجم سے قطع نظر تمام ملٹی نیشنل کمپنیوں کو اس مسئلے کا سامنا ہے، او آئی سی سی آئی کے ارکان کے پہلے کے سروے دیکھیں تو یہ مسئلہ اپریل 2022 سے پہلے موجود نہیں تھا‘۔
بڑے پیمانے پر ڈالر کی قلت نے بینکوں کو خوراک اور توانائی کی درآمدات کے لیے لیٹر آف کریڈٹ کھولنے سے انکار کر دیا ہے، ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کئی برسوں کی کم ترین سطح پر ہیں جس کی وجہ سے حکومت ڈالر کے بڑے پیمانے پر اخراج کو روکنے پر مجبور ہے۔
محمد عبدالعلیم نے کہا کہ او آئی سی سی آئی اراکین باقاعدگی سے اپنی نمائندہ باڈی کو بقایا ادائیگیوں کی صحیح تعداد فراہم نہیں کرتے۔
بڑے غیر ملکی کلائنٹس کو خدمات فراہم کرنے والے ایک انویسٹمنٹ بینک کے سربراہ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے زیر التوا منافع کی رقم ایک ارب ڈالر سے زیادہ ہے، یہ بقایا ادائیگیاں بینکنگ، خوراک، ٹیلی کام، کیمیکل، توانائی، تمباکو، آٹو اور توانائی کی تلاش کے شعبوں کی ہیں۔
پاکستان میں ایک آزادانہ غیر ملکی سرمایہ کاری کی پالیسی موجود ہے جو 100 فیصد منافع بیرون ملک بھیجے جانے کی اجازت دیتی ہے، 2021 میں ملٹی نیشنل کمپنیوں نے ایک ارب 60 کروڑ ڈالر اپنے بیرون ملک ہیڈ کوارٹرز کو بھیجے تھے۔
’آپٹمس کیپٹل مینجمنٹ‘ کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2022 میں نومبر تک یہ رقم 88 کروڑ 90 لاکھ ڈالر تک آگئی، اسٹیٹ بینک کی جانب سے دسمبر تک کے اعدادوشمار تاحال جاری ہونا باقی ہیں۔
گزشتہ ہفتے ایک انٹرویو میں سربراہ برٹش انٹرنیشنل انویسٹمنٹ (بی آئی آئی) نے بتایا کہ برطانیہ کے اہم ترقیاتی مالیاتی ادارے کو 2022 کی دوسری ششماہی میں ڈالر پر مبنی منافع کی منتقلی میں تاخیر کا سامنا کرنا پڑا۔
صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے سربراہ پاکستان بزنس کونسل (پی بی سی) احسان ملک نے کہا کہ ’کچھ ملٹی نیشنل کمپنیاں (جو کہ پین انڈسٹری ایڈوکیسی گروپ کی رکن ہیں) نے ڈالر کے اخراج پر دباؤ کو کم کرنے کے لیے منافع ڈکلیئر کرنا بند کر دیا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’بڑے ادارے ہونے کے ناطے ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ساتھ ساتھ ان کی پیرنٹ کمپنیوں کے پاس بھی اس طرح کے دباؤ کو برداشت کرنے کی استطاعت ہوتی ہے، ان میں سے بہت سی کمپنیاں 1947 سے یہاں موجود ہیں اور یہ پاکستان کے اتار چڑھاؤ، غیر یقینی صورتحال، پیچیدگیوں اور ابہام کا سامنا کرنا سیکھ چکے ہیں‘۔
سربراہ پی بی سی نے کہا کہ ان کی رکن فرمز خام مال کی درآمد اور منافع کی ترسیل میں سے خام مال کی درآمد کو ہی ترجیح دیں گی کیونکہ ان کے لیے کاروباری تسلسل واضح طور پر زیادہ اہم ہے۔
گزشتہ ماہ کے آخر میں عالمی سرمایہ کاروں کی نمائندگی کرنے والے ایک گروپ نے گورنر اسٹیٹ بینک کے ساتھ دیگر مسائل کے علاوہ منافع کی بیرون ملک زیر التوا ترسیل کے معاملے کو حل کرنے کے لیے ایک اجلاس کا اہتمام کیا۔
انہوں نے گورنر سے درخواست کی کہ وہ انہیں گزشتہ سہ ماہی کے مختصر منافع کو واپس بھیجنے کی اجازت دیں اور زیر التوا منافع کی ڈالر کے مطابق قیمت کو لاک کردیں، اس اقدام کا مقصد وصول کنندہ کو شرح مبادلہ کے نقصان سے بچانا ہوتا ہے۔
محمد عبدالعلیم نے کہا کہ بیرون ملک مقیم سرمایہ کاروں نے صورتحال بہتر ہونے تک منافع کی جزوی ترسیلات کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ مکمل منافع کی مکمل ترسیل اس وقت اسٹیٹ بینک کی استطاعت سے باہر ہے۔