• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm

معاشی محاذ پر درپیش بےروزگاری کا چیلنج

شائع March 1, 2023
اسلام آباد پولیس فورس کے تحریری امتحان میں شرکت کرنے والے درخواست دہندگان — تصویر: اسلام آباد پولیس ٹویٹر
اسلام آباد پولیس فورس کے تحریری امتحان میں شرکت کرنے والے درخواست دہندگان — تصویر: اسلام آباد پولیس ٹویٹر

سال 2022ء کے آخری روز، اسلام آباد پولیس فورس میں کانسٹیبل (بی ایس-07) کی اسامیوں کے لیے تحریری امتحان منعقد ہوا جس میں پاکستان بھر سے 30 ہزار سے زائد مرد اور خواتین امیدواروں نے شرکت کی۔

جس اسٹیڈیم میں یہ امتحان ہوا وہ اس طرح بھرا ہوا تھا گویا وہاں فٹ بال کا میچ شروع ہونے والا ہو۔ یہ 30 ہزار سے زائد افراد صرف ایک ہزار 667 اسامیوں کے لیے امتحان دے رہے تھے۔

اس ملازمت کے لیے نشستیں اوپن میرٹ پر مختص کی جاتی ہیں جبکہ علاقائی کوٹے میں خواتین اور اقلیتوں کے لیے مزید تقسیم کی جاتی ہے۔ امتحان میں شرکت کرنے کے لیے امیدواروں کا میٹرک پاس ہونا شرط ہے۔ اگر وہ جسمانی امتحان میں کامیاب ہوجاتے ہیں تب ہی انہیں شارٹ لسٹ کر کے تحریری امتحان کے لیے بلایا جاتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اگر اسامی کے لیے جسمانی امتحان کی شرط نہیں ہوتی تو امتحان میں بیٹھے امیدواروں کی تعداد اس سے بھی کئی گنا زیادہ ہوتی۔ یہ واقعہ ہمیں احساس دلاتا ہے کہ پاکستان کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے پاس مواقع کتنے محدود ہیں اور انہیں کیا مسائل درپیش ہیں۔

پاکستان کو اس وقت جن بڑے معاشی مسائل کا سامنا ہے اس کے بارے میں تجربہ کار ماہرینِ اقتصادیات، سابق وزرائے خزانہ اور اسٹیٹ بینک کے گورنرز میڈیا میں تفصیل سے لکھ چکے ہیں۔ تاہم روزگار پیدا کرنے اور اس کی فراہمی جیسے مسائل کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ شاید ایسا اس وجہ سے ہوتا ہے کہ ہم اس وقت قرضوں کی ادائیگی، معاشی اتار چڑھاؤ اور دیوالیہ ہونے کے خطرے جیسے بڑے اقتصادی مسائل سے نمٹ رہے ہیں۔

پاکستان میں نجی شعبہ ہی روزگار کے حوالے سے پائیدار حل پیش کرسکتا ہے۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومتی حلقے نجی شعبے کے لیے سازگار ماحول پیدا کریں جس میں نجی شعبہ ترقی کرسکے۔

لیکن کچھ انفرااسٹرکچر اور ریگولیٹری رکاوٹیں نجی شعبے کی ترقی میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بڑی تعداد روزگار سے محروم ہے۔

پاکستانی نوجوانوں کے لیے پیدا ہونے والے روزگار کے مواقع توانائی کے بحران، ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ میں کم سرمایہ کاری اور غیر مستحکم سیاسی صورتحال جیسے عناصر کی وجہ سے محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔ پاکستان کو درپیش ایک اور چیلنج یہ بھی ہے کہ ملک کی افرادی قوت کا ایک بڑا حصہ انتہائی کم آمدنی میں خطرناک اور ناقص حالات میں کام کرنے پر مجبور ہے۔

پاکستان میں شاید نوجوانوں کی بے روزگاری کی ایک بڑی وجہ 18 سے 25 سال کی عمر کے نوجوانوں میں مہارت کی عدم مطابقت ہے۔ نوجوانوں کی بڑی تعداد معیاری تعلیم اور ہنر تک رسائی سے محروم ہے جو انہیں مسابقتی مارکیٹ میں روزگار فراہم کرنے میں مددگار ثابت ہو۔ رسمی تعلیم اور دوران ملازمت تربیت نوجوان گریجویٹس کے لیے مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ نجی شعبے کی مدد سے ایک منظم نصاب تیار کرے جو زیادہ سے زیادہ افراد کو روزگار کے حصول کے قابل بناسکے۔

خواتین اور مخنث افراد کو ملازمت کے حصول میں خاص رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر ثقافتی اور قانونی دفعات ان لوگوں کے لیے جائیداد کی ملکیت اور کاروبار شروع کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ تاہم حکومت نے ان خامیوں کو دور کرنے کے لیے چند ٹیکس اقدامات بھی متعارف کروائے ہیں۔

مثال کے طور پر انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کے دوسرے شیڈول کی شق 19 فنانس ایکٹ 2021ء کے ذریعے یہ سہولت دیتی ہے کہ خواتین کی ملکیت میں چلنے والے کاروبار کے منافع پر ٹیکس ادائیگی کو 25 فیصد تک کم کیا جائے۔ تاہم ٹیکس میں کمی کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ کاروبار ایک اسٹارٹ اپ ہو جو یکم جولائی 2021ء کے بعد شروع کیا گیا ہو۔ مزیدبرآں اس شق سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے کاروبار کو کسی دوسرے کے نام پر منتقل کرنے یا پہلے سے موجود کاروبار کی تنظیمِ نو ممنوع ہے۔

آسان ٹیکس شرائط کے علاوہ کاروباری خواتین کو تربیت اور مشاورت کے ذریعے کاروبار شروع کرنے کے حوالے سے آگہی بھی دینی چاہیے۔ نئے کاروباروں کی قومی سطح پر حوصلہ افزائی کرکے ملک میں روزگار کے بحران سے نمٹنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ طلبہ اور گریجویٹس کی کاروباری سرگرمیوں میں منظم طریقے سے ان کے ساتھ تعاون کرنے سے نہ صرف انہیں اپنے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی ملازمتیں پیدا کرنے کا موقع ملے گا۔

پاکستان کی 64 فیصد آبادی 30 سال سے کم عمر ہے۔ نوجوانوں کا ایک ہجوم ہے جنہیں روزگار نہیں دیا گیا تو اس کے ریاست، معاشرے اور معیشت پر سنگین اثرات ہوسکتے ہیں۔ اس طرح پہلے سے مایوسی کا شکار ہمارے معاشرے میں مزید ناامیدی کے بادل چھائیں گے۔

سال 2021ء میں پاکستان کے ادارہِ شماریات کی جانب سے شائع کردہ لیبر فورس سروے میں بےروزگاری میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور یہ بھی بتایا گیا کہ نوجوانوں کو ملازمت کی تلاش میں مشکلات کا سامنا رہے گا۔ اس کے پیچھے ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہنرمند نوجوان اپنی تعلیم اور ہنر کے مطابق نوکری نہ ملنے کے باعث کم تنخواہوں پر کام کرنے پر مجبور ہیں۔ اسلام آباد پولیس میں بھرتی کے لیے امیدواروں کے ہجوم نے بھی اسی رجحان کی عکاسی کی ہے۔

حکومت کے پاس موجود اعدادوشمار کے ذریعے مسائل کی شناخت کرکے ان بحرانوں سے نمٹنے کے لیے انسانی سرمایہ پیدا کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکانومکس کے وائس چانسلر ڈاکٹر ندیم الحق اور ڈائریکٹر درِنایاب کی تحقیق ’پاکستانز اپورچنیٹی ٹو ایکسیل: ناؤ اینڈ دی فیوچر‘ میں لیبر فورس سروے کا بغور جائزہ لیا گیا ہے۔ اس جائزے میں بتایا گیا کہ پاکستان میں یونیورسٹی سے گریجویٹ طلبہ میں بےروزگاری کی شرح 31 اعشاریہ 2 فیصد ہے۔

اعلیٰ تعلیم کی طلب میں اضافے اور نوکریوں میں کمی کے باعث ملک میں بےروزگاری کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔ یہ تعلیمی اداروں اور لیبر مارکیٹ کے درمیان رابطے کی کمی کی جانب اشارہ ہے۔

موجودہ ملکی حالات میں یہ حیران کُن نہیں ہے کہ ہمارے ملک کو اس وقت برین ڈرین کا سامنا ہے۔ ہمارے ڈاکٹر، انجینیئر، آئی ٹی ماہرین اور ماہرینِ تعلیم روزگار کے بہتر مواقع کی تلاش میں ملک سے باہر جانے پر مجبور ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ یا تو پہلے ہی ملک چھوڑ چکے ہیں یا پھر چھوڑنے کی تیاری کررہے ہیں۔ یہ باصلاحیت لوگ ملک میں ملازمت کے کم مواقع اور نامناسب تنخواہوں سے مایوس ہوچکے ہیں۔ یہ لوگ حکومت، سیاسی قیادت اور مجموعی طور پر موجودہ معاشی و سماجی نظام پر اپنا اعتماد کھوچکے ہیں۔

عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے مطابق پاکستان سے اعلیٰ تعلیم کے لیے ملک سے باہر جانے والے نوجوانوں کی شرح 7 فیصد سے زائد ہے جبکہ بھارت میں یہ شرح 2.7 فیصد ہے۔ برین ڈرین کی بڑھتی ہوئی شرح کا یہ اثر بھی ہوسکتا ہے کہ ہمارے ملک میں تعلیم پر سرمایہ کاری شاید تیز رفتار اقتصادی ترقی میں مددگار ثابت نہ ہو کیونکہ یہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی ایک بڑی تعداد ملک چھوڑ دیتی ہے۔

جب تک ہم تعلیم یافتہ اور باصلاحیت لوگوں کی بڑی تعداد کے ملک سے باہر جانے کو روک نہیں لیتے تب تک شاید بہتر تعلیمی مواقع پیدا کرکے مخصوص مہارتوں کی کمی کو دور کرنے کی کوششیں رائیگاں جائیں گی۔

حکومت کو لاتعداد بےروزگار نوجوانوں کی جھولی میں مٹھی بھر اسامیاں ڈالنے اور ’کامیاب جوان پروگرام‘ جیسے سیاسی اقدامات سے بڑھ کر بھی کچھ کرنا چاہیے۔

اگر تعلیم یافتہ نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بےروزگاری کے مسئلے کو سنجیدگی سے حل نہیں کیا گیا تو یہ مستقبل میں معاشرتی عدم توازن، تفسیاتی مسائل اور ملک میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں بھی اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔


یہ مضمون 22 جنوری 2023ء میں ڈان ای او ایس میں شائع ہوا۔

سہیل اختر

لکھاری نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز، اسلام آباد میں لیکچرار ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024