مسلم لیگ (ن) کو پنجاب میں دھچکا، پیر امیر الحسنات پی ٹی آئی میں شامل
پاکستان مسلم لیگ(ن) کو آئندہ عام انتخابات سے قبل بڑا دھچکا لگا ہے اور شمالی پنجاب اور سرگودھا ریجن کی اہم شخصیت اور سابق رکن قومی اسمبلی ڈیرہ شریف کے پیر امیر الحسنات نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) میں شمولیت کا اعلان کردیا ہے۔
ڈیرہ شریف میں پیرامین الحسنات کی پی ٹی آئی میں شمولیت کے اعلان کے موقع پر اسد عمر، فواد چوہدری اور پیر امیر الحسنات سمیت دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ سرگودھا اور اس ضلع کی نامور شخصیت اور گھرانے کو یہاں خوش آمدید کہنے کے لیے یہاں جمع ہوئے ہیں جو آج پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کا فیصلہ کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میرا ہمیشہ سے اس گھرانے سے ایک روحانی اور قلبی رشتہ رہا ہے جو ہمیشہ رہے گا، امیر الحسنات کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے اور ان کے خاندان کی شمولیت سے ضلع سرگودھا اور اس پورے خطے میں تحریک انصاف کو تقویت ملے گی۔
انہوں نے کہا کہ میں یہاں انہیں خوش آمدید کہنے آیا ہوں اور ان کی شمولیت سے تحریک انصاف پہلے سے زیادہ مضبوط ہو گی۔
اسد عمر نے بھی پیر امیر الحسنات کو تحریک انصاف میں شمولیت پر خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ اب اس بات میں کوئی شک نہیں رہا کہ اگر پاکستان کی سیاست میں کوئی لیڈر حقیقتاً عاشق رسولﷺ ہے تو وہ عمران خان ہے اور حرمت رسولﷺ کے لیے انہوں نے جس طرح دنیا میں مقدمہ لڑا ہے اس پر ہر مسلمان کا سر فخر سے بلند ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پیر امیر الحسنات نے ایک ایسے موقع پر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی ہے جب ملک میں تاریخ ساز مہم تحریک چل رہی ہے جو پاکستان کو ایک ایسا ملک بنانا چاہتی ہے جس کا خواب ہمارے آبا و اجداد نے دیکھا، اب حقیقی طور پر آزاد اور مدینے کی ریاست کے اصولوں پر مبنی پاکستان بننے جا رہا ہے تو اس تحریک میں اس وقت آپ کی شمولیت ایک خاص اہمیت رکھتی ہے۔
پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے کہا کہ دربار عالیہ ڈیرہ شریف کی تحریک انصاف میں شمولیت پر میں پیر امیر الحسنات، پیر فاروق اور تمام برادران و اہل خانہ کا شکر گزار ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ برصغیر پاک و ہند میں ڈیرہ شریف کی تاریخ چھپی ہوئی نہیں ہے اور ان کا تحریک پاکستان میں اہم کردار تھا، 1906 سے یہ خاندان ہندوستان اور پھر پاکستان کی سیاست میں اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ(ن) کا شمالی پنجاب سے ویسے ہی صفایا ہو چکا تھا اور اس خاندان کی تحریک انصاف میں شمولیت کے بعد رہی سہی کسر بھی پوری ہو گئی ہے، اس فیصلے سے سرگودھا میں تو مسلم لیگ(ن) عملی طور پر ختم ہو گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں جو حالات ہیں، اس کا الیکشن کے سوا کوئی حل نہیں ہے، آپ چاہے جو مرضی کر لیں، جب تک سیاست نہیں ہوتی اس وقت معیشت ٹھیک نہیں ہو سکتی، پہلے سیاست ٹھیک کریں پھر معیشت ٹھیک ہو گی۔
فواد چوہدری نے کہا کہ گزشتہ روز مزید اراکین اسمبلی کے استعفوں کی منظوری کے بعد اب 64 فیصدنشستیں خالی ہو چکی ہیں جن پر الیکشن کرانا لازمی ہے اور الیکشن کے بغیر معیشت ٹھیک نہیں ہو سکتی، اس لیے ہم جلد از جلد الیکشن کی طرف بڑھیں۔
اس موقع پر پیر امیر الحسنات نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میرا پیر خانہ سیال شریف ہے، ان کا کافی عرصے سے پی ٹی آئی سے تعلق ہے اور وہ ہمیں بھی حکم فرماتے تھے لیکن چونکہ پہلے ایک جماعت کے ساتھ بڑا پرانا رشتہ تھا تو اس وقت ہم اس حکم کی تعمیل نہیں کر پائے لیکن آج ہم اس حکم کی تعمیل کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میرا جس پارٹی سے تعلق رہا ہے تو وہ بہت اچھا وقت گزرا ہے، میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ ہو گیا، وہ ہو گیا، میں اب دعا یہ کرتا ہوں کہ میرا سیاست اور زندگی کا اگلا سفر بھی اچھے انداز میں گزرے۔
ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ یا انتخابات کے ممکنہ التوا کے حوالے سے سوال پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ قیاس آرائیاں تو چلتی رہیں گی لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ آئین کیا کہتا ہے اور ملک کی ضروریات کیا ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آئین کہتا ہے کہ جب دو اسمبلیاں آئینی تقاضوں کو بروئے کار لاتے ہوئے تحلیل ہوئیں تو 90 دن کے اندر اندر انتخابات کرانا لازم ہے اور اگر 90 دن میں الیکشن نہیں کراتے تو یہ آئین شکنی ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ دو اسمبلیاں تحلیل ہو چکی ہیں اور قومی اسمبلی کی نشستوں سے بہت بڑی تعداد میں لوگ مستعفی ہو گئے اور بلوچستان اور سندھ کی اسمبلیوں سے تحریک انصاف کے اراکین اگر علیحدہ ہوتے ہیں تو 64 فیصد ملک کی نشستیں خالی ہو جاتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب ملک کی 64 فیصد نشستیں خالی ہو جائیں اور معیشت کا یہ عالم ہو تو منطقی تقاضا یہ ہے کہ جنرل الیکشن ان کے ساتھ کرا دیے جائیں اور ہمارا پہلے دن سے مطالبہ رہا ہے کہ ملک کی ضرورت یہی ہے کہ فی الفور الیکشن کرا دیے جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کراچی جیسے انتخابات ملک بھر میں کرائے گئے تو اس کے ملک پر بڑے منفی اثرات ہوں گے اور قوم قبول نہیں کرے گی، مت بھولیے کہ جب 1977 میں چند نشستوں میں گڑبڑ ہوئی تھی تو اس کے ردعمل میں لوگ سڑکوں پر آئے تھے اور احتجاج ہوا تھا، کراچی میں آج وہی ماحول بن رہا ہے اور اگر کراچی کے ماحول کو آپ پورے ملک پر نافذ کرنا چاہتے ہیں تو پھر ایسے الیکشن کروائیں جن پر سوالیہ نشان ہو۔