اگلے ہفتے ڈالر آنے سے زرمبادلہ کے ذخائر کی صورتحال بہتر ہو جائے گی، گورنر اسٹیٹ بینک
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر جمیل احمد نے کہا ہے کہ پاکستان میں آئندہ ہفتے سے امریکی ڈالر کی آمد شروع ہو جائے گی جس سے ملک میں تیزی سے کم ہوتے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھنا شروع ہو جائیں گے۔
فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز میں کاروباری شخصیات سے خطاب کرتے ہوئے گورنر اسٹیٹ بینک نے تسلیم کیا کہ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر انتہائی کم ہو گئے ہیں تاہم پائپ لائن میں جو منصوبے ہیں ان سے زرمبادلہ کے ذخائر کی بہتری میں مدد ملے گی۔
آئی ایم ایف اور دوست ممالک سے ڈالر نہ آنے کی وجہ سے 6 جنوری کو ختم ہونے والے ہفتے کو ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو کر 4.34 ارب ڈالر کی سطح پر آ گئے تھے جو فروری 2014 کے بعد زرمبادلہ کے ذخائر کی کم ترین سطح ہے۔
ملک کو ڈالر کی شدید قلت کا سامنا ہے جس کے نتیجے میں اشیائے خوردونوش اور صنعتی خام مال کی درآمدات پر پابندی لگا دی گئی ہے اور ملکی ذخائر کی موجودہ صورتحال اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ ملک میں ایک ماہ کی اوسط درآمدات کا احاطہ کرنے کے لیے بھی مناسب مقدار میں ڈالر موجود نہیں ہیں۔
گوکہ اسٹیٹ بینک نے رواں سال کے اوائل میں چند اہم اشیا کی درآمدات پر عائد پابندی ہٹا دی تھی لیکن اس کے باوجود مختلف شعبوں کی ایسوسی ایشنز نے یہ شکایت کی ہے کہ لیٹر آف کریڈٹ نہ کھولنے کی وجہ سے قلت پیدا ہو گئی ہے اور متعدد کمپنیاں اپنے آپریشنز تک بند کرنے پر مجبور ہو گئی ہیں۔
گورنر اسٹیٹ بینک نے درآمدات پر عائد پابندی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ بینکوں کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ اشیائے خورونوش کی درآمدات، فارماسیوٹیکل اشیا، تیل، زرعی مصنوعات اور برآمدات سے منسلک صنعت کے لیے خام مال سمیت چند شعبوں کے لیے ایل سی کھولنے کو ترجیح دیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یقیناً برآمدات کے نتیجے میں ملک میں ڈالر میں اضافہ ہوتا ہے، ہم نے ایکسپورٹرز کو سہولت فراہم کرنے کے لیے کچھ ترجیحات کا تعین کیا ہے تاکہ ان کا کاروبار چل سکے اور برآمدات پر منفی اثرات مرتب نہ ہوں۔
جمیل احمد نے کہا کہ ہم نے ان شعبوں کو ترجیح دینے کی کوشش کی اور بینکوں سے کہا کہ اگر ان کے پاس ڈالر ہوں تو وہ دیگر شعبوں کو بھی سہولت فراہم کریں لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ دیگر شعبے مرکزی بینک کے لیے اہم نہیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں استعداد اور ملک میں موجود ڈالر کو دیکھتے ہوئے انہیں سہولت دینی ہے لیکن ہمارے پاس زیادہ ڈالر دستیاب نہیں ہیں، اس لیے ہم انتظامی بنیادوں پر مداخلت کرتے ہوئے درآمدات پر پابندی لگا رہے ہیں تاکہ ملک میں ڈالر ایک مناسب سطح پر برقرار رہ سکیں۔