نگران وزیراعلیٰ پنجاب کے نام پر تعطل، متفقہ امیدوار کیلئے پارلیمانی کمیٹی بنانے کی استدعا
پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز کی جانب سے نگراں وزیراعلیٰ کے لیے تجویز کردہ 2 نام پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے مسترد کیے جانے کے بعد گورنر پنجاب نے اسپیکر پنجاب اسمبلی کو خط لکھ کر متفقہ امیدوار لانے کے لیے پارلیمانی کمیٹی بنانے کی استدعا کی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حمزہ شہباز کی جانب سے گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن کو لکھے گئے خط میں کہا گیا کہ تحلیل شدہ اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے میں نے سابق وزیر اعلیٰ کے بھیجے گئے ناموں سے اتفاق نہ کرتے ہوئے 2 نام تجویز کیے ہیں۔
حمزہ شہباز کی جانب سے نگراں وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لیے سید محسن رضا نقوی اور احد خان چیمہ کے نام تجویز کیے گئے۔
مسلم لیگ (ن) کی زیرقیادت وفاقی حکومت نے پارٹی کے انتہائی قریبی سمجھے جانے والے امیدواروں کو نامزد کر کے بہت سے لوگوں کو حیران کر دیا ہے، جبکہ پی ٹی آئی نے ان ناموں کو ’انتہائی متنازع‘ قرار دیا ہے۔
سابق بیوروکریٹ احد چیمہ اس وقت وزیراعظم کے معاون خصوصی ہیں اور انہیں قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے آشیانہ ہاؤسنگ اور آمدن سے زائد اثاثوں کے کیسز کا سامنا ہے، دوسری جانب محسن نقوی ایک میڈیا ہاؤس کے مالک ہیں اور پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری کے بہت قریب سمجھے جاتے ہیں۔
پنجاب سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ (ن) کے ایک سینیئر رہنما نے بتایا کہ ’احد چیمہ وزیر اعظم شہباز شریف کے نامزد امیدوار ہیں اور محسن نقوی آصف زرداری کے نامزد کردہ امیدوار ہیں‘۔
انہوں نے اس اقدام کو نگران وزیر اعلیٰ کی تعیناتی پر تعطل برقرار رکھنے کے لیے وفاقی حکومت کی حکمت عملی قرار دیا تاکہ دونوں فریقین (پرویز الہٰی اور حمزہ شہباز) کے نامزد امیدواروں کے نام بالآخر الیکشن کمیشن کے سامنے پیش کیے جائیں جو ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ ’اس بات کا قوی امکان ہے کہ الیکشن کمیشن حمزہ شہباز کے نامزد کردہ امیدواروں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے گا جو صوبے میں انتخابات میں تاخیر میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’وفاقی حکومت نے اپنے وفاداروں کو نامزد کرکے یہ کوشش کی ہے کہ نگران سیٹ اپ کے ذریعے پنجاب میں اپنی حکمرانی کو یقینی بنائی جائے‘۔
دریں اثنا گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے اسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان کو خط لکھا کہ وہ نگران وزیراعلیٰ کی تعیناتی کے لیے آئین کے آرٹیکل 224 اے-2 کے تحت طریقہ کار پر عمل کریں کیونکہ پرویز الہیٰ اور حمزہ شہباز کے درمیان کسی ایک امیدوار پر اتفاق رائے نہیں ہوسکا ہے۔
اسپیکر پنجاب اسمبلی کو اب 6 رکنی کمیٹی تشکیل دینی ہوگی جس میں 3، 3 ارکان صوبائی اسمبلی شامل ہوں گے جو کہ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) اور اپوزیشن جماعت مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے نامزد کردہ ہوں گے۔
کمیٹی کے پاس پرویز الہٰی اور حمزہ شہباز کے نامزد کردہ ناموں پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے 3 روز کا وقت ہوگا، اس کے باوجود اتفاق رائے نہ پیدا ہونے کی صورت میں عبوری وزیراعلیٰ کی تعیناتی کا معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس جائے گا جس کا قوی امکان موجود ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی جانب سے نامزد امیدواروں پر تبصرہ کرتے ہوئے سینیئر پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے سوال کیا کہ اتنے اہم عہدے کے لیے ایسے ’غیر سنجیدہ‘ لوگوں کو کیسے تجویز کیا گیا؟
عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ ’پی ٹی آئی کو مسلم لیگ (ن) کی جانب سے باضابطہ طور پر کوئی نام نہیں دیا گیا لیکن احد چیمہ اور محسن نقوی کے نام ایک مذاق لگتے ہیں، احد چیمہ نیب کیسز میں مطلوب رہ چکے ہیں اور محسن نقوی کے بارے میں تو بات ہی نہ کریں، امید ہے اس بات میں کوئی حقیقت نہ ہو کہ یہ نام مسلم لیگ (ن) کی جانب سے نامزد کیے گئے ہیں‘۔
رہنما مسلم لیگ (ق) مونس الہٰی نے کہا کہ محسن نقوی خود کو آصف علی زرداری کا بیٹا، شہباز شریف کا پارٹنر اور گجرات کے چوہدریوں کا رشتہ دار کہتے ہیں۔
قبل ازیں وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی نے کہا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے نگراں وزیراعلیٰ کے لیے تین نام تجویز کردیے ہیں۔
انہوں نے بتایا تھا کہ عمران خان نے نگراں وزیر اعلیٰ کے لیے احمد نواز سکھیرا، سابق وزیر صحت نصیر خان اور سابق چیف سیکریٹری ناصر سعید کھوسہ کے نام تجویز کیے ہیں۔
تاہم ناصر سعید کھوسہ نے اس پیشکش کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا، انہوں نے اس سے قبل 2018 میں بھی پی ٹی آئی کی اسی پیشکش کو ٹھکرا دیا تھا۔