• KHI: Zuhr 12:32pm Asr 4:14pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:28pm
  • ISB: Zuhr 12:08pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:32pm Asr 4:14pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:28pm
  • ISB: Zuhr 12:08pm Asr 3:27pm

نیب ترامیم: عدالت کیوں اس شخص کے کیس کا فیصلہ کرے جو خود پارلیمنٹ کا حصہ بننا نہیں چاہتا، سپریم کورٹ

شائع January 17, 2023
چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سماعت کی — فائل/فوٹو: ڈان
چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سماعت کی — فائل/فوٹو: ڈان

سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) ترامیم کے خلاف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) چیئرمین عمران خان کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے استفسار کیا کہ عدالت کیوں اس شخص کے کیس کا فیصلہ کرے جو خود پارلیمنٹ کا حصہ بننا نہیں چاہتا۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کی۔

دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ حکومت اور پی ٹی آئی دونوں ہی احتساب کا مؤثر قانون چاہتے ہوں گے، دونوں فریقین مل کر بہترین قانون بنا سکتے ہیں، توقع ہے دونوں کی جانب سے دانشمندی کا مظاہرہ کیا جائے گا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ صرف اتنا کہہ دیں کہ ترامیم کا اطلاق ماضی سے نہیں ہوگا تو 90 فیصد کیس ختم ہوجائے گا، ترامیم کے ماضی سے اطلاق کے حوالے سے قانون واضح ہے، وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان کو اسی لیے ہدایات لینے کا کہا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ توقع ہے حکومت کھلے ذہن کے ساتھ معاملے کا جائزہ لے گی، سپریم کورٹ کئی مرتبہ آبزرویشن دے چکی ہے کہ نیب ترامیم کیس پارلیمان میں حل ہونا چاہیے، بادی النظر میں عمران خان کا کیس 184/3 کے زمرے میں آتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا مناسب نہیں ہوگا کہ پی ٹی آئی اسمبلی میں ترمیمی بل لائے جس پر بحث ہو، اسمبلی میں بحث سے ممکن ہے کوئی اچھی چیز سامنے آجائے اس پر عمران خان کے وکیل نے کہا کہ اسمبلی میں واپس جانا یا نہ جانا سیاسی فیصلہ ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ اگر پارلیمان سے مسئلہ حل نہ ہو تو عمران خان عدالت آسکتے ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کئی اراکین پارلیمنٹ کا کرپشن کے سنگین الزامات پر ٹرائل چل رہا تھا، کیا کوئی ایسی مثال ہے کہ ارکان اسمبلی نے اپنے کیسز ختم کرانے کے لیے قانون سازی کی ہو۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ امریکی صدر کو اختیار ہے کہ کسی بھی مجرم کو عام معافی دے دے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا نیب ترامیم ایمنسٹی اسکیم ہے یا عام معافی، کیا نیب ترامیم کا ماضی سے اطلاق کرنا اپنے الزامات صاف کرنا نہیں ہے۔

وکیل مخدوم علی خان نے استفسار کیا کہ آئین میں ایسی کوئی پابندی نہیں کہ ترامیم کا ماضی سے اطلاق نہ ہوسکے، کبھی کوئی قانون اس وجہ سے کالعدم نہیں ہوا کہ ارکان پارلیمنٹ کی نیت اچھی نہیں تھی۔

وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ عدالت ارکان اسمبلی کی نیت کا تعین نہیں کر سکتی، مفادات کا ٹکراؤ بھی قانون سازی کالعدم کرنے کی وجہ نہیں ہو سکتا، بجٹ منظور کرنے والے کئی ارکان اسمبلی صنعتکار اور کاروباری بھی ہوتے ہیں۔

اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا ارکان اسمبلی کے کنڈکٹ پر عدالت اپنی حدود کو پھیلا سکتی ہے، سپریم کورٹ ایسے شخص کا کیس کیوں سن رہی ہے جو پارلیمنٹ سے باہر ہے، عمران خان پارلیمنٹ کی بحث کا حصہ بننا چاہتے ہیں نہ ہی فیصلوں کو مانتے ہیں، عدالت کیوں اس شخص کے کیس کا فیصلہ کرے جو خود پارلیمنٹ کا حصہ بننا نہیں چاہتا، ایک شخص کے فیصلوں کی وجہ سے پورا سسٹم منجمد ہو رہا ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جہاں درخواست گزار موجود ہی نہیں اس کارروائی کو کیا چیلنج کر سکتے ہیں۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ یہ دیکھنا اہم ہے کہ نیب ترامیم غیر آئینی ہیں یا نہیں، ایک وزیر نے پاکستان آکر وزارت کا حلف لیا اور عدالت میں پیش ہونے سے نیب کیسز ختم ہوئے، ایک اور وزیر خزانہ اس شرط پر بنے کہ ان پر دائر نیب کیسز ختم کیے جائیں، پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو نیب ترامیم سے ریلیف ملا لیکن اسے کسی نے چیلنج نہیں کیا۔

وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ سابق وزیر اعظم، وزیر خزانہ اور ایک ادارے کے چیف ایگزیکٹو پر نیب کیس بنایا گیا، کئی سال جیل میں رکھنے کے بعد تفتیش میں کچھ نہ ملنے پر وہ بری ہوئے، نیب ماضی میں سیاسی انجینئرنگ کے لیے استعمال ہوتا رہا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نیب کے کنڈکٹ کے خلاف درخواست لے کر آئیں عدالت کارروائی کرے گی، ہمیں آزاد تفتیشی اور پراسیکیوٹرز چاہئیں، تفتیشی افسران اور پراسیکیوٹرز کی نالائقی کی وجہ سے قانون کا نظام خراب ہوا، ملک کے قانونی نظام کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔

نیب ترامیم

خیال رہے کہ رواں سال جون میں مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت اتحادی حکومت نے نیب آرڈیننس میں 27 اہم ترامیم متعارف کروائی تھیں، لیکن صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ان کی منظوری نہیں دی تھی، تاہم اس بل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کیا گیا اور بعد میں اسے نوٹیفائی کیا گیا تھا۔

نیب (دوسری ترمیم) بل 2021 میں کہا گیا ہے کہ نیب کا ڈپٹی چیئرمین، جو وفاقی حکومت کی جانب سے مقرر کیا جائے گا، چیئرمین کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد بیورو کا قائم مقام چیئرمین بن جائے گا، بل میں چیئرمین نیب اور بیورو کے پراسیکیوٹر جنرل کی 4 سال کی مدت بھی کم کر کے 3 سال کردی گئی ہے۔

قانون کی منظوری کے بعد نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکے گا، مزید یہ کہ ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر نکال دیا گیا ہے۔

بل میں کہا گیا ہے کہ اس آرڈیننس کے تحت افراد یا لین دین سے متعلق زیر التوا تمام پوچھ گچھ، تحقیقات، ٹرائلز یا کارروائیاں متعلقہ قوانین کے تحت متعلقہ حکام، محکموں اور عدالتوں کو منتقل کی جائیں گی، بل نے احتساب عدالتوں کے ججوں کے لیے 3 سال کی مدت بھی مقرر کی ہے، یہ عدالتوں کو ایک سال کے اندر کیس کا فیصلہ کرنے کا پابند بھی بنائے گا۔

مجوزہ قانون کے تحت نیب کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ملزم کی گرفتاری سے قبل اس کے خلاف شواہد کی دستیابی کو یقینی بنائے، بل میں شامل کی گئی ایک اہم ترمیم کے مطابق یہ ایکٹ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے شروع ہونے اور اس کے بعد سے نافذ سمجھا جائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 24 دسمبر 2024
کارٹون : 23 دسمبر 2024