آئی ایم ایف جائزے میں تاخیر اور سیاسی عدم استحکام، اسٹاک مارکیٹ کریش کر گئی
پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں کاروبار کے دوران مسلسل دوسرے روز حصص کی قیمتوں میں کمی آئی اور مارکیٹ کریش کر گئی جس کی وجہ معاشی تجزیہ کاروں نے آئی ایم ایف کے جائزے میں تاخیر اور سیاسی غیر یقینی کی صورتحال کو قرار دیا ہے۔
کے ایس ای-100 انڈیکس 1378.54 پوائنٹس یا 3.47 فیصد کمی کے بعد 38 ہزار 342.21 پوائنٹس پر بند ہوا، یہ 24 جون 2022 کے بعد ایک دن میں ہونے والی سب سے زیادہ کمی ہے۔
انڈیکس ایک موقع پر دوپہر 3 بجکر 23 منٹ پر 1432.94 پوائنٹس یا 3.74 فیصد کمی کے بعد 38ہزار 287.81 پوائنٹس پر پہنچ گیا تھا تاہم بعد میں دن ختم ہونے سے قبل مارکیٹ میں چند پوائنٹس کا اضافہ ہوا۔
ڈائریکٹر فرسٹ نیشنل ایکویٹیز لمیٹڈ عامر شہزاد نے کہا کہ ’سیاسی بےیقینی کی صورتحال کی وجہ سے مارکیٹ پہلے ہی دباؤ میں ہے کیونکہ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان کی جانب سے آج صوبائی اسمبلی کو تحلیل کرنے کے لیے گورنر کو سمری بھیجنے کا امکان ہے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’مارکیٹ ان خدشات کی وجہ سے اضافی دباؤ میں آئی کہ حکومت کے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ مذاکرات میں تاخیر ہو سکتی ہے‘۔
عامر شہزاد کا کہنا تھا کہ ’سیاسی بےیقینی کی صورتحال پہلے سے موجود ہے لیکن آئی ایم ایف کے مطالبات کا اضافی دباؤ ہے جن میں گردشی قرضوں کا خاتمہ اور مارکیٹ پر مبنی شرح تبادلہ پر عمل شامل ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’آج مارکیٹ پر دباؤ کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات جلد طے ہونے کا امکان نہیں ہے‘۔
ڈائریکٹر عارف حبیب کارپوریشن احسن محنتی نے کہا کہ ’انڈیکس، آئی ایم ایف کی سخت شرائط کی اطلاعات پر نیچے آیا ہے جن میں شرح تبادلہ کو کنٹرول کرنے کا سلسلہ ختم کرنا، گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور گردشی قرضوں کے مسئلے کا حل شامل ہیں۔
علاوہ ازیں اسٹیٹ بینک کی جانب سے مانیٹری پالیسی کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں سود کی شرح میں اضافے کی اطلاعات کا بھی مارکیٹ پر دباؤ بڑھا ہے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الہیٰ کی جانب سے گورنر پنجاب کو صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے کی باضابطہ ایڈوائس کے بعد گزشتہ ہفتے سیاسی بے یقینی صورتحال کے باعث کے ایس ای 100 انڈیکس 684 پوائنٹس نیچے آگیا تھا۔
ہفتہ (14 جنوری) کو پنجاب اسمبلی تحلیل ہوگئی جبکہ نگراں وزیر اعلیٰ کا تقرر ہونا باقی ہے، حکومت کو قبل از وقت عام انتخابات کرانے پر مجبور کرنے کے لیے اپوزیشن کی حکمت عملی کے تحت خیبرپختونخوا اسمبلی بھی جلد تحلیل ہونے کا امکان ہے۔
دریں اثنا اسٹیٹ بینک کے ذخائر 4 ارب 34 کروڑ ڈالر تک گرنے کے بعد ملک کی غیر ملکی زرمبادلہ کی صورتحال مزید خراب ہوگئی ہے جو کہ فروری 2014 کے بعد کم ترین ہے۔
ملک کو ڈالر کی شدید قلت کا سامنا ہے جس کے سبب خوراک اور صنعتی خام مال کی درآمدات بھی محدود ہو رہی ہیں۔
زرمبادلہ کے ذخائر کی تازہ ترین صورتحال اس بات کا اشارہ دیتی ہے کہ پاکستان کے پاس موجود ڈالرز ایک ماہ کی اوسط درآمدات کے لیے بھی ناکافی ہیں۔
موجودہ صورتحال میں پاکستان کو ایک ارب 18 کروڑ ڈالر کے اجرا کے لیے آئی ایم ایف کا انتہائی تاخیر کا شکار نواں جائزہ مکمل کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان نے آئی ایم ایف سے جولائی 2019 میں قرضہ پروگرام پر معاہدہ کیا تھا جس کے تحت 6 ارب ڈالر ملنے تھے، گزشتہ برس اسے بڑھا کر 7 ارب ڈالر کردیا گیا تھا۔
پروگرام کا نواں جائزہ 2 ماہ کے لیے ملتوی کر دیا گیا تھا کیونکہ مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کی بعض شرائط کو تسلیم کرنے میں رضامندی ظاہر نہیں کی گئی تھی، ان اختلافات کا حل ہونا تاحال باقی ہے۔
6 جنوری کو وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ نویں جائزے کو حتمی شکل دینے کے لیے آئی ایم ایف کا وفد آئندہ 2 سے 3 روز میں پاکستان آئے گا۔