سندھ: زیرِ آب علاقے اور سیکیورٹی خدشات بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں رکاوٹ بننے میں ناکام
حکومتِ سندھ کی جانب سے آج ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کو کسی نہ کسی بہانے مؤخر کرنے کی کوششیں ناکامی سے دوچار ہوئیں تاہم پیپلزپارٹی حیدرآباد کے میئر کی نشست جیتنے کے لیے پُراعتماد ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پیپلزپارٹی کی ان امیدوں کی بنیاد یہ حقیقت ہے کہ حیدرآباد شہر میں حلقہ بندیاں اس طرح کی گئی ہیں جو پیپلزپارٹی کے لیے موزوں ہیں، یہاں دیہی علاقے اور قاسم آباد تعلقہ کو حیدرآباد میونسپل کارپوریشن (ایچ ایم سی) میں ضم کردیا گیا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ برس حیدرآباد میں کسان ریلی میں اعلان کیا تھا کہ ’مجھے حیدرآباد میں جیالا میئر چاہیے‘۔
الیکشن کمیشن نے حکومتِ سندھ کے اس دعوے سے اتفاق نہیں کیا کہ دادو ضلع کے کچھ سیلاب زدہ حلقوں میں پولنگ نہیں ہوسکے گی اور انتخابی عمل کو سیکیورٹی خطرات درپیش ہیں۔
چوتھی بار انتخابات کو موخر کرنے کے لیے حکومتِ سندھ نے 31 دسمبر 2021 کا نوٹیفکیشن بھی واپس لے لیا جس میں حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کی نئی حدود کی وضاحت کی گئی تھی جوکہ ایم کیو ایم (پاکستان) کے مطالبات میں سے ایک تھا۔
تاہم الیکشن کمیشن ان دعووں اور اقدامات کا خاطر میں نہیں لایا، اس نے دادو کے خیرپور ناتھن شاہ اور میہڑ کے اضلاع کے حوالے سے بھی اسی طرح کی درخواست کو مسترد کر دیا جو کہ اب تک گزشتہ برس کے سیلاب سے بری طرح متاثر ہیں۔
ڈپٹی کمشنر/ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر (ڈی آر او) کی جانب سے رپورٹ کے مطابق حکومت نے دلیل دی تھی کہ یہ دونوں علاقے تاحال زیر آب ہیں۔
الیکشن کمیشن کے ایک عہدیدار نے کہا کہ ’حقیقی صورتحال کا تعین کرنے کے لیے دادو کی حد تک الیکشن کمیشن نے خود تصدیق کرائی‘۔
اس مقصد کے لیے صوبائی الیکشن کمشنر (پی ای سی) اعجاز انور چوہان نے 5 جنوری کو ایک کمیٹی تشکیل دی تھی، کمیٹی کے ارکان نے 6 جنوری کو دادو کا دورہ کیا اور ایجوکیشن افسران کے بیانات قلمبند کیے جنہوں نے دعویٰ کیا کہ تمام اسکول فعال ہیں۔
کمیٹی نے مشاہدہ کیا کہ علاقے میں موجود صرف زرعی زمینیں ہی زیرِآب ہیں جبکہ باقی جگہوں پر ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے، کمیٹی نے یہ نتائج صوبائی الیکشن کمشنر کو پیش کیے کہ ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر کے دعووں کے برعکس کوئی بھی گاؤں متاثر نہیں ہوا ہے۔
الیکشن ملتوی کرنے کے لیے حکومت کی بار بار درخواستوں کے علاوہ 31 دسمبر 2021 کا نوٹیفکیشن واپس لیے جانے کا فیصلہ بھی الیکشن کمیشن کے مؤقف پر اثرانداز نہیں ہوا جس میں حیدر آباد میونسپل کارپوریشن کی نئی حدود کی وضاحت کی گئی تھی۔
ایم کیو ایم نے حیدرآباد کے نئے بلدیاتی منظرنامے پر اس بنیاد پر سوال اٹھایا تھا کہ دیہی علاقوں کو شہری علاقوں میں ضم کردیا گیا ہے اور 2 ووٹر لسٹوں کا استعمال کیا گیا ہے۔
بلدیاتی انتخابات کے لیے حیدرآباد میں 160 یونین کمیٹیز میں سے 26 پر پیپلز پارٹی کے یوسی چیئرمین پہلے ہی بلامقابلہ منتخب ہوچکے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ ’حلقہ بندیوں کے معاملہ حکومت کے سامنے صحیح وقت پر اٹھایا جانا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’الیکشن کمیشن کو اچانک حکومتِ سندھ کی جانب سے بتایا گیا کہ دہشت گردی کے سنگین خطرے کا الرٹ ہے اور ان خدشات کو رد نہیں کیا جا سکتا لیکن الیکشن کمیشن نے اس دلیل کو تسلیم نہیں کیا اور حکومتِ سندھ کو آج پولنگ یقینی بنانے کی ہدایت دی‘۔