پشاور: تاجروں نے خیبر پختونخوا میں آٹا بحران کا ذمے دار حکومت پنجاب کو قرار دے دیا
اگرچہ حکومت خیبرپختونخوا نے صوبے میں آٹے کے بحران کا ذمہ دار حکومت سندھ کو قرار دیا لیکن مقامی تاجر اس الزام سے متفق نہیں ہیں اور اصرار کرتے ہیں کہ بحران کا اصل ذمے دار پنجاب ہے اور جیسے ہی حکومت پنجاب گندم کی بین الصوبائی نقل و حرکت پر پابندی واپس لے گی تو آٹے کی قیمت معمول پر آ جائے گی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 11 جنوری کو خیبر پختونخوا کے وزیر خوراک محمد عاطف نے دعویٰ کیا کہ سندھ حکومت کی جانب سے گندم کی سپورٹ پرائس، حکومت پنجاب کی جانب سے اعلان کردہ مقررہ رقم سے زیادہ مقرر کیے جانے کی وجہ سے صوبے میں آٹے کی قیمت میں اضافہ ہوا۔
خیبر پختونخوا میں آٹے کے ڈیلرز نے وزیر خوراک کے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ صوبے میں آٹے کی قیمت میں اضافے کے معاملے کا سندھ کی جانب سے مقرر کردہ گندم کی امدادی قیمت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
آٹے کے تاجروں کی تنظیم کے رکن نے ڈان کو بتایا سندھ کی جانب سے اعلان کردہ گندم کی امدادی قیمت آئندہ فصل کے لیے ہے، پتا نہیں کس نے عاطف کو یہ آئیڈیا دیا کہ وہ آٹے کے بحران کا ذمے دار سندھ کی سپورٹ پرائس کو قرار دیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت خیبر پختونخوا آٹے کے بحران کا ذمہ دار حکومت پنجاب کو نہیں ٹھہرائے گی، کیونکہ ان دونوں صوبوں میں پاکستان تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کی حکومت ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ملک میں گندم کی کوئی قلت نہیں ہے۔
کے پی فلور ڈیلرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین حاجی وحید نے ڈان کو بتایا کہ اٹک بارڈر کھولیں یعنی پنجاب سے گندم کی دیگر صوبوں میں نقل و حمل پر عائد پابندی ختم کریں، اگلے ہی روز آٹے کی قیمت میں کمی نظر آئے گی۔
حاضی وحید کے مطابق اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پنجاب گندم کا سب سے بڑا سپلائی کرنے والا صوبہ ہے اور جب وہ گندم کی نقل و حرکت پر پابندی لگاتا ہے تو مارکیٹ میں قلت ہو جاتی ہے، عام طور پر پنجاب میں 20 کلو آٹے کا تھیلا ایک ہزار 500 روپے میں بکتا ہے لیکن جب دفعہ 144 نافذ کرکے آنے کی نقل و حرکت پر پابندی لگائی جاتی ہے تو اس کی قیمت خیبر پختونخوا کے رہائشیوں کے لیے ایک ہزار 8 سو روپے ہوجاتی ہے۔
حاجی وحید نے کہا کہ اگر کسی نے پنجاب کے محکمہ خوراک اور پولیس اہلکاروں کو رشوت دی اور پنجاب سے باہر نقل و حمل کے لیے 100 تھیلوں والے ٹرک کے لیے تقریباً 2 روپے ادا کیے تو آٹے کی اس تھیلے کی قیمت 2 ہزار روپے فی بیگ تک پہنچ جائے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ نقل و حمل کے اخراجات کے باعث ہول سیلرز کے لیے ہی آٹے کے تھیلے کا ریٹ 2 ہزار ایک سو روپے تک ہوجاتا ہے، انہوں نے کہا کہ ریٹیلر حضرات لوگوں سے کم از کم 200 روپے فی بیگ وصول کریں گے، اس طرح ایک ہزار 8 سو روپے میں خریدا گیا 20 کلو کا تھیلا 2 ہزار 300 روپے میں مارکیٹ میں فروخت جائے گا۔
ڈیلر باڈی کے چیئرمین نے کہا کہ اپریل 2022 سے اب تک گندم کا ایک بھی کارگو ملک میں نہیں آیا جس سے واضح ہوتا ہے کہ گندم درآمد کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور گوداموں میں 2023 کے کرشنگ سیزن تک کے لیے گندم موجود ہے۔
دوسری جانب تاجروں کا دعویٰ ہے کہ آٹے کا بحران بدانتظامی کی وجہ سے پیدا ہوا۔
فلور مل کے سابق مالک حاجی محمد نیاز نے کہا کہ اگر حکومت سبسڈی والے آٹے کے تھیلوں کا یومیہ کوٹہ 5 ہزار ٹن سے بڑھا کر 6ہ زار 500 ٹن کرنے کا دعوی کرتی ہے تو آخر آٹا جا کہاں رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر حکومت روزانہ 3 لاکھ 25 ہزار آٹے کے تھیلے تقسیم کرتی ہے تو یہ آٹا تقریباً 3 لاکھ 25 ہزار خاندانوں یا تقریباً 22 لاکھ افراد تک روزانہ پہنچنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ تقریباً 57 لاکھ خاندانوں کے ساتھ خیبر پختونخوا میں ہر خاندان کو آٹا فراہم کرنے کے لیے کم از کم 18 روز درکار ہیں اور میں سبسڈی والے آٹے کے بارے میں بات کر رہا ہوں جو بازار میں دستیاب نہیں ہے۔
حاجی نیاز نے الزام لگایا کہ سبسڈی والے آٹے میں سے آدھے سے بھی کم ”اصل“ صارفین تک پہنچتا ہے جبک باقی آٹا اوپن مارکیٹ میں فروخت کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آٹے کی سپلائی چین کو برقرار رکھا جانا چاہیے، ضلعی انتظامیہ کو مل مالکان سے پوچھنا چاہیے کہ انھوں نے کس کو آٹا فراہم کیا جب کہ انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ ڈیلرز سے پوچھے کہ انھوں نے سبسڈی والے آٹے کے تھیلے کس کو فروخت کیے، اس طریقہ کار پر صرف 2 روز تک عمل کریں اور آپ دیکھیں گے کہ آٹے کی قیمت فوری طور پر نیچے آجائے گی ۔
خیبر پختونخوا کے فوڈ ڈائریکٹر محمد یاسر حسن سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ صوبے نے 95 ارب روپے سے زائد میں ایک کروڑ 20 لاکھ ٹن گندم خریدی ہے تاکہ لوگوں کو رعایتی نرخوں پر آٹا فراہم کیا جا سکے، انہوں نے کہا کہ سبسڈی سے حکومت پر 35 ارب روپے کا مالی بوجھ پڑے گا۔
خیبر پختونخوا کے فوڈ ڈائریکٹر نے ملک سے افغانستان کو گندم کی اسمگلنگ کی تردید کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ان دنوں میں صرف کوئی بیوقوف ہی ہی گندم افغانستان لے جائے گا جب کہ افغانستان میں گندم کی قیمتیں پاکستان کے مقابلے کم ہیں۔