• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے 19 ارب روپے سرکاری عہدیداروں میں تقسیم کیے جانے کا انکشاف

شائع January 13, 2023
سینیٹر مشاہد حسین سید نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے 2020 میں سرکاری افسران میں رقوم کی تقسیم سے متعلق کی گئی انکوائری  کے بارے میں سوال کیا—فوٹو : رائٹرز
سینیٹر مشاہد حسین سید نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے 2020 میں سرکاری افسران میں رقوم کی تقسیم سے متعلق کی گئی انکوائری کے بارے میں سوال کیا—فوٹو : رائٹرز

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے 19 ارب روپے ایک لاکھ 43 ہزار سرکاری عہدیداروں اور ملازمین میں غیر قانونی طور پر تقسیم کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ملک کے معاشی طور پر کمزور طبقے کی امداد کے لیے جاری پروگرام میں ہونے والی اس بڑی کرپشن کا انکشاف آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے دفتر کی جانب سے سرکاری اداروں کے مالی معاملات پر نظر رکھنے والی پارلیمانی کمیٹی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کو دی گئی بریفنگ میں ہوا۔

پاورٹی ایلیویشن اور سوشل سیفٹی ڈویژن کی آڈٹ رپورٹ کی جانچ پڑتال کے دوران پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے رکن سینیٹر مشاہد حسین سید نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے سیکریٹری یوسف خان سے 2020 میں سرکاری افسران میں رقوم کی تقسیم سے متعلق کی گئی انکوائری کی پیش رفت کے بارے میں سوال کیا۔

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام فنڈز کی غیر مستحق افراد میں تقسیم کا یہ معاملہ 2020 میں سامنے آیا تھا اور اس وقت کی حکومت نے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کو معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

سینیٹر مشاہد حسین سید کے سوال کے جواب میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے سیکریٹری یوسف خان نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو بتایا کہ سرکاری ملازمت میں موجودایک لاکھ 43 ہزار غیر مستحق اور غیر قانونی طور پر رقم وصول کرنے والے افراد میں سے 2 ہزار 5 سو ملازمین ایسے تھے جو گریڈ سترہ یا اس سے بھی اوپر کے گریڈ میں نوکریاں کررہے تھے۔

یوسف خان نے کہا کہ یہ سرکاری عہدیدار بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ضرورت مند لوگوں کے لیے مختص فنڈز اپنی شریک حیات اور رشتہ داروں کے ناموں پر نکال رہے تھے۔

اس دوران چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نور عالم خان نے ان ناجائز فائدہ اٹھانے والے افسران اور ملازمین کو ادا کی گئی کل رقم کے بارے میں سوال کیا تو سیکریٹری بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام نے کہا کہ وہ ان عہدیداروں کو جاری کردہ رقم کے صحیح اعداد و شمار سے لاعلم ہیں۔

تاہم، آڈٹ حکام نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو بتایا کہ 19 ارب روپے غیر مستحق افراد کو ادا کیے گئے ہیں۔

اس موقع پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین نے اسکینڈل کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بھی تشکیل دی اور پندرہ روز میں رپورٹ طلب کی، انہوں نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو ہدایت کی کہ اے جی پی، ایف آئی اے اور نیب کے حکام پر مشتمل جے آئی ٹی کو ریکارڈ فراہم کیا جائے۔

پاکستان پاورٹی ایلیویشن فنڈ اور اخوت مائیکرو فنانس کے لیے مختص کیے گئے وزیراعظم ریلیف فنڈ کے 20 کروڑ 20 لاکھ روپے کے ریکارڈ کی عدم فراہمی سے متعلق آڈٹ پیرا کی جانچ کے دوران پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی انتظامیہ پر برہمی کا اظہار کیا۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے آڈیٹر جنرل پاکستان، ایف آئی اے اور نیب حکام کو ہدایت کی کہ وہ جے آئی ٹی کو متعلقہ تفصیلات اور ڈیٹا فراہم نہ کرنے کی صورت میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور تخفیف غربت اور سماجی تحفظ ڈویژن کے موجودہ اعلیٰ افسران کے خلاف ایف آئی آر درج کریں۔

سینیٹر محسن عزیز نے اجلاس میں دعویٰ کیا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے فنڈز کو غریب مستحق خاندانوں کی تکالیف کو دور کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا گیا بلکہ اپنے من پسند لوگوں کو نوازا گیا اور ان کی جیبیں بھری گئیں۔

ایم این اے نزہت پٹھان نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور اور تخفیف غربت اور سماجی تحفظ ڈویژن کے سیکریٹریز سے کہا کہ وہ ان قواعد و ضوابط کی نشاندہی کریں جن کے تحت انہوں نے سندھ کے سیلاب متاثرین کے لیے ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز کو نقد رقم منتقل کی۔

چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نور عالم خان نے نے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی انتظامیہ کی جانب سے کمیٹی کے سوالات کے جواب نہ دینے پر مایوسی کا اظہار کیا اور وزیر اعظم اور متعلقہ وفاقی وزیر کو خط لکھنے سے خبردار کیا۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024