توشہ خانہ کیس: طبی وجوہات کے سبب عمران خان عدالت میں پیش نہ ہو سکے
اسلام آباد کی مقامی عدالت نے توشہ خانہ تحائف سے متعلق الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ریفرنس کی سماعت نہ کرنے پر پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے لیے ایک بار پھر سمن جاری کیے جبکہ لاہور ہائی کورٹ نے اسی کیس میں سابق وزیراعظم کی نااہلی کے لیے دو ایک جیسی درخواستیں نمٹا دیں۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق پیر کو اسلام آباد کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ظفر اقبال نے ریفرنس پر دوبارہ کارروائی شروع کی جس میں کہا گیا کہ عمران خان نے سال 19-2018 میں جمع کرائے گئے اثاثوں اور واجبات کے گواشواروں میں توشہ خانہ کے تحائف کو جان بوجھ کر چھپایا تھا جو انہوں نے 2018 اور 2019 میں اپنی وزارت عظمیٰ کے دور میں اپنے پاس رکھے تھے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ ریکارڈ کی جانچ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سال 19-2018 کے لیے قیمت کی بنیاد پر یہ تحائف توشہ خانہ سے 2کروڑ 15لاکھ 64ہزار 600 روپے کی ادائیگی کے بعد خریدے گئے تھے، ان گفٹ آئٹمز کی کل مالیت 10 کروڑ 79 لاکھ 43ہزار تھی۔
الیکشن کمیشن ریفرنس کے مطابق عمران خان نے تحائف کی تفصیلات ظاہر نہ کرکے جان بوجھ کر مادی حقائق کو چھپایا، اپنے تحریری جواب میں مبہم بیان بھی دیا ہے کہ مالی سال 20-2019 کے دوران ان کی طرف سے خریدے گئے تحائف کو انہوں نے تحفے میں دے دیا یا ان کے کی جانب سے انہیں تحفے میں دے دیا گیا۔
پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم نے عمران خان کو طبی وجوہات کی بنا پر ذاتی حاضری سے استثنیٰ دینے کی درخواست جمع کرائی۔
جج ظفر اقبال نے نشاندہی کی کہ درخواست ایک ایسے وکیل کی جانب سے دائر کی گئی ہے جسے عمران خان کی جانب سے نمائندگی کے لیے مقرر کیا جانا باقی ہے۔
پی ٹی آئی کے وکیل سید علی بخاری نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان نے ابھی تک پاور آف اٹارنی پر دستخط نہیں کیے ہیں جس پر عدالت نے انہیں اگلی سماعت تک پاور آف اٹارنی جمع کرانے کی ہدایت کی۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے وکیل سعد حسن نے عدالت سے استدعا کی کہ فوجداری مقدمے کی سماعت کے دوران عمران خان کی عدم حاضری پر ان کے وارنٹ جاری کیے جائیں۔
تاہم جج نے ریمارکس دیے کہ عدالت مناسب وقت پر اس سوال کا جائزہ لے گی اور مزید کارروائی 31 جنوری تک ملتوی کردی۔
درخواستیں نمٹا دی گئیں
چیف جسٹس محمد امیر بھٹی کی سربراہی میں لاہور ہائی کورٹ کے لارجر بینچ نے دوبارہ سماعت شروع کی تو درخواست گزاروں میں سے ایک کے وکیل ایڈووکیٹ اظہر صدیق نے کہا کہ ان کے موکل درخواست واپس لینا چاہتے ہیں کیونکہ عمران خان نے توشہ خانہ کیس میں ان کی نااہلی کی درخواست کے خلاف ذاتی طور پر عدالت سے رجوع کیا تھا۔
بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس عابد عزیز شیخ اور جسٹس ساجد محمود سیٹھی شامل تھے۔
بینچ نے وکیل کی درخواست منظور کرتے ہوئے درخواست واپس لے لی۔
بینچ نے دوسری درخواست کو بھی نمٹا دیا جس میں الیکشن کمیشن کو عمران خان کو پی ٹی آئی چیئرمین کے عہدے سے ہٹانے کی ہدایت کی درخواست کی گئی تھی۔
بینچ نے مشاہدہ کیا کہ درخواست بے نتیجہ رہی کیونکہ الیکشن کمیشن نے اس معاملے پر پہلے ہی اپنی کارروائی شروع کر دی تھی۔
ایڈووکیٹ محمد آفاق کی طرف سے دائر کی گئی اس درخواست میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن نے سابق وزیراعظم کو بدعنوانی کے الزام میں نااہل قرار دیا تھا اور انہیں میانوالی کے حلقہ این اے-95 سے ڈی سیٹ کیا تھا۔
لہٰذا عوامی نمائندگی ایکٹ 1976 اور پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 کے مطابق سیاسی جماعت کے عہدیداروں کو آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 میں فراہم کردہ معیارات پر پورا اترنا چاہیے۔
انہوں نے دلیل دی کہ عمران خان الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ پارٹی پی ٹی آئی کی سربراہی جاری رکھ کر قوانین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور آرٹیکل 63 کے تحت نااہل قرار دیا گیا شخص کسی سیاسی جماعت کا عہدیدار بننے یا رہنے کا حقدار نہیں ہے۔
ایڈووکیٹ اظہر صدیق نے این اے-95 کے ووٹر جابر عباس خان کی جانب سے درخواست دائر کی تھی جس میں الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 137(4) کی قانونی حیثیت کو چیلنج کیا گیا تھا جس میں الیکشن کمیشن نے عمران خان کو ڈی سیٹ کرنے کا کہا تھا۔
درخواست گزار نے دلیل دی کہ پی ٹی آئی چیئرمین کو الیکشنز ایکٹ کی دفعہ 137(4)، 167 اور 173 کے تحت نااہل قرار دیا گیا ہے حالانکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ان سیکشنز میں لفظ ’نااہلی‘ کا ذکر نہیں ہے۔