• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am

سیلاب زدہ پاکستان سے دنیا کی توجہ ہٹ گئی ہے لیکن پانی ختم نہیں ہوا، وزیراعظم

شائع January 6, 2023
وزیراعظم نے کہا کہ مستقبل کے بارے میں بھی ایک لائحہ عمل سامنے آئے گا—فائل/فوٹو: ڈان
وزیراعظم نے کہا کہ مستقبل کے بارے میں بھی ایک لائحہ عمل سامنے آئے گا—فائل/فوٹو: ڈان

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سیلاب زدہ پاکستان سے دنیا کی توجہ ہٹ گئی ہے لیکن سندھ اور بلوچستان سمیت ملک کے کئی علاقوں میں پانی بدستور کھڑا ہے۔

برطانوی اخبار دی گارجین میں شائع مضمون میں وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ گزشتہ برس کے سیلاب کے بحران میں ایک ہزار 700 افراد جاں بحق اور 3 کروڑ 30 لاکھ متاثر ہوئے۔

وزیراعظم شہباز شریف کا مذکورہ مضمون 9 جنوری کو جنیوا میں کلائمیٹ ریزیلینٹ پاکستان پر انٹرنیشنل کانفرنس سے قبل شائع ہوا ہے اور اس کانفرنس کی میزبانی حکومت پاکستان اور اقوام متحدہ مشترکہ طور پر کر رہی ہیں۔

کانفرنس کا مقصد 2022 میں آنے والے تباہ کن سیلاب کے حوالے سے پاکستان کے عوام اور حکومت سے تعاون کے لیے دنیا بھر سے حکومتی نمائندوں، عوامی اور نجی شعبوں کے رہنماؤں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو یکجا کرنا ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے مضمون میں کہا کہ ’بین الاقوامی توجہ کم ہوئی ہے لیکن پانی کم نہیں ہوا، سندھ اور بلوچستان کے اکثر علاقے بدستور ڈوبے ہوئے ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’پاکستان میں غذائی عدم تحفظ کے شکار افراد کی تعداد دوگنا ہو کر ایک کروڈ 40 لاکھ ہوگئی ہے اور دیگر 90 لاکھ انتہائی غربت کا شکار ہوگئے ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’سیلاب سے متاثرہ یہ علاقے اب مستقل جھیلوں کے بڑے سلسلے کا منظر پیش کر رہے ہیں، خطے کو مکمل طور پر بدل دیا ہے اور عوام وہاں جی رہے ہیں، ایک سال سے کم عرصے میں پمپس کی بڑی تعداد بھی وہاں سے پانی ختم نہیں کرسکتی‘۔

خدشات کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’جولائی 2023 تک ان علاقوں میں دوبارہ سیلاب کے خطرات ہیں‘۔

وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کو ’موسمیاتی تبدیلی کے بدترین اثرات‘ کا سامنا ہے اور ملک میں 2022 میں آنے والی ہٹ ویو کے حوالے سے بھی مسائل اجاگر کیے۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ حقیقت ہے کہ ان میں سے چند علاقوں میں ریکارڈ گرمی ہوئی اور اسی طرح موسم کے سلسلے میں تیزی سے تبدیلی آئی جو معمول بن رہا ہے‘۔

وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان نے ان مسائل کا بھرپور انداز میں مقابلہ کیا ہے اور حکومت نے ہنگامی بنیاد پر 1.5 ارب ڈالر کی امداد شروع کی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان عالمی برادری اور دوست ممالک کا مشکور ہے جنہوں نے بدترین صورت حال سے بچنے کے لیے مدد کی کیونکہ 20 لاکھ سے زائد گھر، 14 ہزار کلو میٹر سڑکیں اور 23 ہزار اسکول اور طبی مراکز تباہ ہوگئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’بحران کے بعد کے ضروریات کے حوالے سے عالمی بینک اور یورپی یونین کے اشتراک سے جائزہ لیا گیا ہے اور سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ 30 ارب ڈالر سے زیادہ تھا جو پاکستان کی گراس ڈومیسٹک پروڈکٹ کا دسواں حصہ ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ تعداد صورت حال کی شکل واضح کر رہی ہے، وہ ایسے ردعمل کے متقاضی ہیں جو کسی ملک کے وسائل کو تقویت دیں‘۔

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے سندھ کے دورے کے موقع پر ناقابل فہم تباہی کے مناظر خود دیکھے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ تباہی 2010 میں پاکستان میں آنے والے سیلاب سے کہیں زیادہ ہے، جس کو ’اقوام متحدہ نے تعبیر کیا تھا کہ ا سے اب تک کا بدترین بحران کا تجربہ ہوا ہے اور پاکستان اس سے تنہا نہیں نمٹ سکتا ہے‘۔

ماحولیاتی کانفرنس کے حوالے سے وزیراعظم نے کہا کہ وہ اور اقوام متحدہ کے سربراہ دونوں جنیوا میں اس کی میزبانی کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’ہمارے ساتھ عالمی رہنما، بین الاقوامی سفارتکاری اور فلاحی اداروں کے نمائندے اور پاکستان کے دوست شریک ہوں گے جو اس ملک سے تعاون اور یک جہتی کا مظاہرہ کریں گے جہاں بحران کا سامنا جو اس کا اپنا پیدا کردہ نہیں ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ عالمی بینک، یورپی یونین، ایشیائی ترقیاتی بینک اور اقوام متحدہ کے تعاون سے روڈ میپ تیار کیا گیا ہے جو سیلاب کے بعد تعمیر نو اور بحالی کے لیے پیش کیا جائے گا۔

وزیراعظم نے کہا کہ ’اجلاس کا پہلا مرحلہ بحالی اور تعمیر نو کے لیے 3 برس میں درکار کم ازکم 16.3 ارب ڈالر کے چیلنج سے متعلق ہے، پاکستان کو نصف فنڈز اپنے وسائل سے ملیں گے لیکن خلا کو پر کرنے کے لیے ہم اپنے شراکت داروں سے مسلسل تعاون چاہیں گے‘۔

انہوں نے کہا کہ دوسرا حصہ موسمیاتی مسائل سے بحالی کے لیے پاکستان کے وژن کے حوالے سے ہے، جس کے لیے 10 برس میں 13.5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری درکار ہوگی۔

شہباز شریف نے کہا کہ جنیوا کانفرنس طویل اور مشکل سفر کا آغاز ہوگی جو مشکل میں گھرے کروڑوں افراد کے لیے امید کا باعث ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ مجھے توقع ہے کہ جنیوا میں ہمارا اجلاس ہمارے اشتراکات اور فراخ دلی کا نمونہ ہوگی اور یہ ان تمام افراد اور ممالک کے لیے امید کی ایک وجہ ہوگی جن کو مستقبل میں قدرتی آفات کا سامنا ہوسکتا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024