• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

رمضان میں گھی اور تیل کے بحران کا خدشہ

شائع January 6, 2023
—فائل فوٹو: ڈان
—فائل فوٹو: ڈان

ملک میں گندم کا آٹا اور مرغی کی قیمتوں میں اضافے کے بعد اب رمضان المبارک میں گھی اور تیل کی قیمتوں اور قلت میں بھی اضافے کا خدشہ ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق گندم کے آٹے اور چکن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث پہلے ہی زیادہ تر گھریلو بجٹ متاثر ہورہے ہیں اور اگر فوری اقدامات نہیں کیے گئے تو آئندہ مہینوں بالخصوص ماہِ رمضان میں تیل اور گھی کا بحران شدت اختیار کرسکتا ہے۔

اس سلسلے میں پیدوار کے ذمے دار حلقے روغنی تیل، سویابین تیل اور سَن فلاور آئل سے محروم ہورہے ہیں، اس کی وجہ بینکوں کی جانب سے لیٹر آف کریڈٹ نہ کھولنے اور بندرگاہ پر سامان کی کلیئرنس کے لیے ریٹائرنگ دستاویزات جاری نہ کرنا ہے، اس حقیقت کے باوجود کہ 27 دسمبر 2022 کو اسٹیٹ بینک کی جانب سے خام مال کو ضروری اشیا قرار دیا گیا ہے۔

بینکوں کی جانب سے لیٹر آف کریڈٹ نہ کھولنے اور ریٹائرمنٹ دستاویزات کی درخواستیں مسترد کیے جانے کی وجہ سے کسٹمز بانڈڈ گوداموں سے 3 لاکھ 58 ہزار ٹن خوردنی تیل کو اٹھانے سے منع کردیا گیا ہے۔

اسٹیٹ بینک کو بتایا گیا ہے کہ کمرشل بینکوں نے درآمد کنندگان اور مینوفیکچررز کو آگاہ کیا ہے کہ خوردنی تیل کو ضروری اشیا کی فہرست سے فوری طور پر خارج کردیا گیا ہے۔

جس کے نتیجے میں غیر ملکی سپلائر کی حمایت میں لیٹر آف کریڈٹ کی ریٹائرمنٹ میں غفلت یا کوتاہی کی وجہ سے تاخیر سے ادائیگی میں جرمانہ لگایا جائے گا جبکہ اسی دوران روپیہ ڈالر کے مقابلے میں اپنی قدر کھو رہا ہے جس سے درآمدات کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

اس صورتحال پر بات کرتے ہوئے پاکستان وناسپتی مینوفیکچر ایسوسی ایشن (پی وی ایم اے) کے سیکریٹری جنرل عمر اسلم خان نے نشاندہی کی کہ روغنی تیل کی قیمت پہلے ہی 13 ہزار فی ماؤنڈ سے بڑھ کر 14 ہزار فی ماؤنڈ تک پہنچ گئی ہے، جس کی وجہ سے فی کلو گرام/لیٹر گھی اور تیل کی قیمتوں میں 26 روپے اضافہ ہوا ہے۔

اسی طرح 3 لاکھ 58 ہزار خام مال کی کلیئرنس ہونا ابھی باقی ہےجبکہ 10 جہازوں پر ایک لاکھ 75 ہزار ٹن خام مال کراچی اور بن قاسم بندرگاہوں پر موجود ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اگر لیٹر آف کریڈٹ کی ریٹائرمنٹ تاخیر کا شکار ہوتی ہے تو صارفین کو گھی اور تیل کی فی کلوگرام/لیٹر کی قیمتوں میں ایک بار پھر 15 سے 20 فیصد اضافے کا سامنا کرنا پڑے گا۔

روغنی تیل، سَن فلاور اور سویا بین تیل کو بیرون ملک سے پاکستان پہنچنے کے لیے کم از کم 60 روز لگتے ہیں۔

انہوں نے متعلقہ حکام سے ممکنہ طور پر رمضان میں مارچ کے تیسرے ہفتے سے گھی اور تیل کے بحران سے بچنے کے لیے اس مسئلے کو فوری طور پر حل کرنے کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ رمضان میں تیل اور گھی کی اشیا کی مانگ میں 25 سے 20 فیصد اضافہ ہوتا ہے۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو خط

پاکستان وناسپتی مینوفیکچر ایسوسی ایشن کے چیئرمین شیخ عبدالزاق نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر جمیل احمد کو خط میں لکھا کہ ملک میں 90 فیصد خوردنی تیل درآمدشدہ ہے تاکہ سالانہ 4 کروڑ 50 لاکھ ٹن سے زیادہ کی ضرورت کو پورا کیا جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا موجودہ اسٹاک صرف تین سے چار ہفتوں کی طلب کو پورا کرسکتا ہے اس لیے لیٹر آف کریڈٹ اور دستاویزات کی ریٹائرمنٹ کو جاری نہ کرنا ناگزیر ہے اور مرکزی بینک کے 27 دسمبر 2022 کے سرکلر کے مطابق اسے ترجیح دینا انتہائی ضروری ہے۔

انہوں نے اسٹیٹ بینک کے سربراہ پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ کمرشل بینکوں کو صنعتوں کی درخواست پر لیٹر آف کریڈٹ کو ترجیح دینے کی ہدایت کریں۔

انہوں نے مزید کہا کہ صنعت کو کئی مختلف مشکلات کا سامنا ہے، کراچی کسٹم بانڈ ویئر ہاؤس سے اسٹاک جاری کرنے کے باوجود بینکوں کی جانب سے دستاویزات کو ریٹائر کرنے سے انکار کی وجہ سے انڈسٹری انہیں اٹھانے سے قاصر ہے۔

پی وی ایم اے کے سربراہ نے کہا کہ کئی ہفتوں سے جاری صورتحال نے اب مارکیٹ میں منفی اثرات مرتب کرنا شروع کردیے ہیں۔

اس سے متعلق پیش رفت میں کراچی چیمبر آف کامرس اور انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے صدر محمد طارق یوسف نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیٹ بینک کی ہدایات کے باوجود لیٹر آف کریڈٹ نہیں کھولے گئے۔

اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ خام مال، پھل، سبزیاں، دالیں، ادویات جیسی ضروری اشیا کی درآمد کے لیے بینک لیٹر آف کریڈٹ کو نہیں کھول رہا۔

انہوں نے مزید کہا کہ صنعت بالخصوص برآمد شدہ صنعتوں کے لیے کمرشل درآمدات بہت زیادہ ضروری ہے اس لیے اس کو کسی قیمت پر بھی نہیں روکا جاسکتا۔

کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سربراہ نے کہا کہ بندرگاہ پر بڑی تعداد میں کنٹینر کلیئرنس کے منتظر ہیں جس کی وجہ سے جرمانوں میں بہت زیادہ اضافہ ہورہا ہے اور کئی معاملات میں کنٹینر کے جرمانے موجودہ سامان کی قیمت سے تجاوز کر گئے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ کنٹینر جہاز کی ملکیت ہیں جنہیں جلد از جلد واپس کرنا بہت ضروری ہے لیکن کنٹینر میں کلیئرنس میں تاخیر سے پاکستان کا کردار متاثر ہوگا۔

انہوں نے حکومت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ ان تمام کنٹینرز کو جرمانے کے بغیر چھوڑنے کی فوری ہدایات جاری کرے۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024