• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

درآمدی پابندیوں کے سبب طبی سہولیات کی فراہمی میں تعطل کا خدشہ

شائع January 5, 2023
عدنان صدیقی نے کہا کہ پاکستان میں طبی سہولیات اور سرجریوں کی بندش شروع ہو گئی ہے—فائل فوٹو:اے ایف پی
عدنان صدیقی نے کہا کہ پاکستان میں طبی سہولیات اور سرجریوں کی بندش شروع ہو گئی ہے—فائل فوٹو:اے ایف پی

ہیلتھ کیئر ڈیوائسز ایسوسی ایشن (ایچ ڈی اے) نے میڈیکل اور سرجیکل آلات کی درآمد کے لیے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) میں رجسٹریشن کو لازمی قرار دینے کی حالیہ پابندی کے بعد ملک بھر میں علاج معالجے کی سہولیات میں خلل پیدا ہونے سے متعلق حکام کو خبردار کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایسوسی ایشن کے سینیئر وائس چیئرمین عدنان احمد صدیقی نے کہا کہ ’ڈریپ گزشتہ کئی برسوں سے رجسٹریشن کے لیے جمع کرائی گئی زیادہ تر درخواستوں پر فیصلے نہیں کر سکا، اب تک صرف 3 ہزار درخواستوں کو ہی نمٹایا گیا ہے جبکہ پاکستان میں استعمال ہونے والی طبی اشیا کی تعداد 3 لاکھ سے زیادہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’ڈریپ نے ایس آر او 526 کے تحت رجسٹریشن کا وقت 31 دسمبر 2022 تک بڑھایا تھا جس کے بعد یکم جنوری 2023 سے تمام غیر رجسٹرڈ طبی آلات اور لیبارٹری ٹیسٹ قانونی طور پر درآمد اور فروخت نہیں کیے جا سکتے۔

انہوں نے کہا کہ ’اس صورتحال میں طبی سہولیات کی فراہمی میں سنگین بحران کا خدشہ منڈلا رہا ہے چونکہ پاکستان میں طبی سہولیات اور سرجریوں کی بندش شروع ہو گئی ہے، لاتعداد افراد کی زندگیاں خطرے میں ہیں، علاج کے لیے لازمی سہولیات تک رسائی کا فقدان ملک میں بہت سے لوگوں کے لیے ایک بھیانک حقیقت بن چکا ہے‘۔

عدنان احمد صدیقی کے مطابق طبی اور سرجیکل آلات اور مشینری کی درآمد پر پابندی کے باعث آنے والے دنوں میں طبی سہولیات کی فراہمی کا بحران مزید سنگین ہو سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ڈریپ نے طبی آلات کی رجسٹریشن کو لازمی قرار دیا تھا جس کے بعد درآمدی پالیسی کو ڈریپ سرٹیفکیٹ سے مشروط کر دیا گیا ہے۔

عدنان احمد صدیقی نے مزید کہا کہ ’علاوہ ازیں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے بینکوں کو فارماسیوٹیکل اور سرجیکل/طبی آلات اور تشخیصی مصنوعات کی ادائیگیوں کو ترجیح دینے کی ہدایت کے باوجود زرمبادلہ کی وجہ سے مقامی بینکوں میں ایل سی کھولنے سے متعلق پیچیدگیاں موجود ہیں، اس کے نتیجے میں درآمدات تقریباً رک گئی ہیں‘۔

انہوں نے بتایا کہ ’ان طبی آلات میں لیبارٹری ٹیسٹ اور سرجری کے لیے استعمال ہونے والی اشیا کے ساتھ ساتھ ہسپتالوں میں استعمال ہونے والے دیگر آلات شامل ہیں‘۔

عدنان احمد صدیقی کا کہنا تھا کہ ’طبی آلات میں سرنج، کنولا، شوگر اور بلڈ پریشر کی پیمائش کرنے والے آلات سمیت الٹراساؤنڈ، ایکسرے، سی ٹی سکین، اور ایم آر آئی مشینیں بھی شامل ہیں اور طبی آلات کے بغیر کوئی بھی ہسپتال صحت کی سہولیات فراہم نہیں کر سکتا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’پاکستان میں موجود ہسپتالوں میں استعمال ہونے والے 90 فیصد طبی آلات درآمد شدہ ہوتے ہیں، درآمدات بند ہونے سے ہسپتالوں میں علاج معالجے کی فراہمی مں رکاوٹ پیدا ہونے لگی ہے‘۔

عدنان احمد صدیقی نے کہا کہ ’ڈریپ، وفاقی محکمہ صحت اور دیگر اعلیٰ حکام اس معاملے سے آگاہ ہیں، اگر ان مسائل کو فوری طور پر حل نہ کیا گیا تو یہ معاملہ سنگین انسانی بحران میں تبدیل ہو سکتا ہے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ جان بچانے والی حساس سرجریوں کے لیے درکار طبی سہولیات اور آلات کی فراہمی میں تعطل کا شدید خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر متعلقہ اداروں نے ان خدشات کو دور کرنے کے لیے فوری اقدامات نہ کیے تو آنے والے دنوں میں طبی سہولیات اور سرجیکل آلات کی فراہمی کا بحران مزید سنگین ہو جائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024