امریکا اور پاکستان مشترکہ خدشات و مفادات پر مبنی مستحکم تعلق استوار کرنے کے خواہاں
2023 کے امریکی بجٹ میں پاکستان کے لیے 2 چھوٹی لیکن اہم دفعات شامل ہیں جن میں پاک-افغان سرحد پر سیکیورٹی کو بہتر بنانے کے لیے ڈیڑھ کروڑ ڈالر اور ملک میں صنفی مساوات کو فروغ دینے کے لیے فنڈز شامل ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پہلا عزم پاکستان کو افغانستان کی جانب سے دہشت گرد حملوں کو روکنے میں مدد کرنے کے لیے امریکی خواہش کی نشاندہی کرتا ہے جبکہ صنفی مساوات کو فروغ دینے کے لیے 20 کروڑ ڈالر مالیت کا دوسرا فنڈ سماجی فلاح و بہبود میں امریکا کی مزید شمولیت کے عزم کی عکاسی کرتا ہے۔
سال 2022 کے اختتام کے ساتھ ایک چیز واضح ہوگئی کہ امریکا اور پاکستان سرد جنگ، افغانستان پر روس کے حملے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران دونوں ممالک کے درمیان موجود ہمہ گیر تعلقات کی بحالی کے خواہاں نہیں ہیں۔
اس کے بجائے دونوں ممالک مشترکہ خدشات اور مفادات پر مبنی ایک مستحکم تعلق استوار کرنے کے لیے کوشاں ہیں، امریکی محکمہ خارجہ نے ایک حالیہ نیوز بریفنگ میں بھی اس بات کی نشاندہی کی۔
ترجمان محکمہ خارجہ نیڈ پرائس نے کہا کہ ’افغانستان کے اندر دہشت گرد گروہوں کی موجودگی، پاک-افغان سرحد پر فعال دہشت گرد گروہوں جیسے مشترکہ خدشات کی بات کریں تو حکومت پاکستان امریکا کی شراکت دار ہے، اس تازہ صورتحال یا بدلتی پیش رفت کے درمیان ہم مدد کے لیے تیار رہیں گے‘۔
رواں ماہ کے آغاز میں امریکی کانگریس کے دورے کے دوران وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے ڈان کو بتایا تھا کہ ’سینیئر امریکی قانون سازوں نے بھی افغانستان سے سرحد پار حملوں کو روکنے کے لیے بارڈر سیکیورٹی بڑھانے میں پاکستان کی مدد کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے‘۔
اس سے امریکا اور پاکستان کے درمیان دہشت گردی کی حوصلہ شکنی پر بڑھتے ہوئے اتفاق رائے کی نشاندہی ہوتی ہے، لیکن کچھ ایسے امور ہیں جہاں امریکا اور پاکستان کے مفادات ایک دوسرے کے موافق نہیں ہیں جن میں خاص طور پر بھارت اور چین کا معاملہ شامل ہے۔
2022 کے دوران کئی بریفنگز میں امریکی حکام نے بھارت کو ایک ’عالمی شراکت دار‘ کے طور پر سراہتے ہوئے تسلیم کیا کہ اس حساس خطے میں پاکستان بھی ایک کلیدی شراکت دار ہے۔
امریکی حکام نے واضح کیا کہ یہ کوئی ایسا معاملہ نہیں جس کے لیے امریکا کو بھارت یا پاکستان میں سے محض کسی ایک کے ساتھ ہی تعلقات رکھنے کی ضرورت ہو، اس کے بجائے امریکا دونوں کے ساتھ اپنے تعلقات برقرار رکھنے کا خواہاں ہے۔
تاہم امریکی حکام کو اس بات کا احساس ہے کہ وہ بھارت پر اپنے اثر و رسوخ کا استعمال اسے ایسا کچھ کرنے پر راضی کرنے کے لیے نہیں کر سکتے جو وہ نہیں کرنا چاہتا، انہوں نے واضح کیا کہ وہ بھارت کو مقبوضہ کشمیر پر اپنا مؤقف تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کر سکتے۔
ایک اور بڑا مسئلہ جس پر امریکا اور پاکستان ایک دوسرے سے متفق نہیں ہیں وہ چین کا ہے، 2022 میں بائیڈن انتظامیہ نے اپنی قومی سلامتی کی حکمت عملی جاری کی جس میں چین کو امریکا کے لیے سب سے بڑا ’جغرافیائی سیاسی چیلنج‘ قرار دیا گیا اور چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو کم کرنے کے لیے عالمی حمایت طلب کی گئی۔
امریکی قومی دفاعی حکمت عملی 2022 کے تعارفی نوٹ میں وزیر دفاع لائیڈ جے آسٹن نے کہا کہ امریکا، چین کی جارحیت کو روکنے اور بحر ہند کے علاقے تک آزادانہ اور کھلی رسائی کو یقینی بنانے کے لیے بھارت کے ساتھ ایک بڑی دفاعی شراکت داری کا خواہاں ہے۔
تاہم دیگر امریکی حکام نے چین کے ساتھ پاکستان کے مضبوط تعلقات کو تسلیم کرتے ہوئے مزید کہا کہ انہیں توقع نہیں ہے کہ امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے پاکستان، چین کے ساتھ تعلقات ترک کردے گا، لہٰذا اُنہوں نے پاکستان کے چین اور امریکا دونوں کے ساتھ تعلقات رکھنے کے حوالے سے امریکا کی رضامندی ظاہر کی۔